مسلم دنیا کے سیاسی حالات کا جائزہ :۲۰۲۱ء میں ہونے والے واقعات کے تناظر میں

 

۲۰۱۱ء میں اسلامی دنیا میں زبردست اتھل پتھل پیدا ہوئی تھی، جسے عرب بہار کا نام دیا گیا تھا، مختلف ملکوں میں سیاسی انقلاب کی تحریکیں اٹھیں، کہیں کچھ کام یاب ہوئیں، کچھ دیر سویر ناکام ہوئیں اور کچھ اٹھنے سے پہلے ہی دبادی گئیں۔انقلابی لہروں کے ساتھ ہی انقلاب مخالف کوششیں تیز ہوئیں اور جگہ جگہ انقلابی لہروں کو زندہ درگور کرنے کی سعی کی گئی۔ انقلاب اور ردّ انقلاب کی اس کشمکش میں کتنے ہی شہر قبرستانوں اور کھنڈروں میں تبدیل ہوگئے۔جیل سیاسی قیدیوں سے اور پردیس جلاوطنوں سے آباد ہوگئے۔استبداد سے آزادی کے راستے پر مایوسی کے سائے منڈلانے لگے، لیکن آزادی کاامکان بہرحال ثابت ہوگیا۔

 اب دس سال بعد ۲۰۲۱ء میں اسلامی دنیا مختلف حصوں میں کچھ نئی تبدیلیاں دیکھ رہی ہے۔ ان تبدیلیوں کا اہم محور وہ اسلام پسند تحریکیں ہیں جو اسلام کے سیاسی نظام کی علم بردار ہیں۔

مسئلہ فلسطین کو تازگی اور مضبوطی ملی

مسجد اقصی اور یروشلم میں اسرائیلی جارحیت رکنے کا نام نہیں لے رہی تھی، دوسری جانب ساری دنیا خاموشی اختیار کیے ہوئی تھی اور اس کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی تھی۔ کچھ عرب ملکوں نے اسرائیل کے ساتھ پینگیں بڑھا کر پورے فلسطین کا سودا کرلینے کا عندیہ بھی دے دیا تھا۔ ایسے میں غزہ نے اسرائیلی جارحیت کا یروشلم کے اندر جواب دیا۔ اسرائیل نے غزہ پر زبردست بمباری کی اور عام شہریوں کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا۔  لیکن عالمی سطح پر فلسطینوں کی کوششوں نیز داخلی سطح پر ان کی قربانیوں نے دنیا کو اسرائیلی ظلم کی طرف توجہ دینے پر مجبور کردیا۔ امریکہ اور یوروپ کے اندر سے اسرائیلی بربریت کے خلاف طاقت ور آوازیں اٹھنے لگیں۔ فلسطینی عوام جو متعدد دھڑوں میں تقسیم تھے مسجد اقصی کی حفاظت کے نام پر متحد ہوگئے۔اس معرکے میں فلسطینیوں کو اخلاقی فتح حاصل ہوئی اور غاصب اسرائیل کو زبردست رسوائی کا سامنا کرنا پڑا۔ غزہ کے عوام نے اس کے لیے خوش دلی اور رضامندی کے ساتھ بھاری قیمت ادا کی، غزہ کی اسلامی تحریک اس کے لیے قابل صد مبارک باد ہے۔

لیبیا :  خانہ جنگی سے امن کی طرف

۲۰ اکتوبر ۲۰۱۱ء میں لیبیا میں انقلابی تحریک معمر قذافی کی حکومت زمین بوس کرنے میں کام یاب ہوئی۔ لیکن اس کے بعد ہی ملک شدید قسم کی خانہ جنگی کا شکار ہوگیا۔ ملک میں دو حکومتیں قائم ہوگئیں، مشرق میں بنغازی دارالحکومت بنا اور مغرب میں تریپولی۔ تریپولی کی حکومت کو بین الاقوامی سطح پر اعتراف حاصل تھا جب کہ انقلاب مخالف ملکوں (مصر، عرب امارات وغیرہ) نے مشرق میں موجود فیلڈ مارشل خلیفہ حفتر کی پشت پناہی کی۔ حفتر نے افریقہ کے مختلف ملکوں سے مافیا گروپوں کو بھی اس جنگ میں شامل کرلیا اور مشرق کی طرف پیش قدمی کی۔ برسوں کی جنگ کے بعد ۲۰۲۰ء میں صورت حال زیادہ خراب ہوگئی۔ قریب تھا کہ تریپولی پر حفتر کی فوج کا قبضہ ہوجائے لیکن وہاں کی حکومت نے ترکی کے ساتھ معاہدہ کیا جس کے بعد صورت حال تبدیل ہوئی اور حفتر کی فوجوں کو پسپائی اختیار کرنی پڑی۔ترکی کی بروقت مداخلت نے تریپولی کی حکومت کو سہارا دیا اور یہ واضح ہوگیا کہ طاقت کے بل پر کوئی فریق پورے ملک کو کنٹرول نہیں کرسکتا ہے۔ اس کے بعد سیاسی مذاکرات پر توجہ بڑھی اور خوش آئندپیش رفت ہوئی۔ فروری ۲۰۲۱ ء میں جنیوا میں ملک کے سیاسی نمائندوں کا اجلاس ہوا اور اس میں قومی وحدت کی حکومت تشکیل پائی۔ عبدالحمید دبیبہ کو عبوری صدر منتخب کیا گیا، محمد منفی کی سربراہی میں صدارتی کونسل تشکیل دی گئی اور ان کے ذمے یہ کام تفویض کیا گیا کہ ملک میں امن قائم کرکے اس سال دسمبر کے اواخر میں ملک میں صدارتی اور پارلیمانی انتخابات کرالیے جائیں۔

عبدالحمید دبیبہ کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ وہ اسلامی ذہن رکھتے ہیں۔ ان کے اس اعلان کو بھی ستائش کی نظر سے دیکھا گیا کہ وہ ملک میں ہونے والے انتخابات میں امیدوار نہیں بنیں گے۔ لیکن ابھی بھی ان کے سامنے بڑے چیلنج ہیں۔ ملک کو کرائے کی مافیاؤں سے پاک کرنا، خلیفہ حفتر کی گرفت سے فوج اور ملک کو آزاد کرنااور پھر قبائلی اور علاقائی عصبیتوں کے ہوتے ملک میں امن وامان قائم رکھنا جوئے شیر لانے کے برابر ہے۔

لیبیا قدرتی وسائل کے پہلو سے بہت مال دار ملک ہے۔ عوام میں دینی رجحان بھی ہے۔ بیالیس سال تک معمر قذافی کی ڈکٹیٹر شپ کے نیچے دبا رہا۔ اس سے آزادی ملی تو انارکی کا شکار ہوگیا۔ یہ رات بھی دس سال پر محیط ہے۔ اب صبح نو کی امید نے کروٹ لی ہے۔

لیبیا میں وہی غلطی دہرائی گئی جو افغانستان میں روس کے انخلا کے بعد ہوئی تھی۔ مجاہدین ِآزادی نے خود کو اقتدار میں شرکت کا حق دار سمجھا اور مضبوط نظام و مستحکم سیاست کی تشکیل کی طرف توجہ نہیں دی۔ آمریت کے زمانے میں عوام کو سیاسی طور سے اتنا بے شعور اور ناپختہ بناکر رکھا جاتا ہے کہ آمریت سے آزادی ملنے کے بعد وہ ایک مضبوط سیاسی نظام تشکیل دینے کے بجائے انارکی کے دلدل میں جاپھنستے ہیں اور از سرِ نو آمریت کے لیے فضا ہم وار ہونے لگتی ہے۔

لیبیا کے حالات سبق دیتے ہیں کہ استبداد کا تختہ پلٹنا ہی کافی نہیں ہوتا ہے، عوام کے ذہنوں میں سیاسی شعور اور آزادی سے بے لوث محبت پیدا کرنا بھی ضروری ہے۔

غاصب صہیونی ریاست میں فلسطینی سیاست

ادھر کچھ برسوں سے غاصب صہیونی ریاست اسرائیل میں رہنے والے مسلمان عربوں نے ایک مختلف تجربہ کیا۔ انھوں نے الیکشن میں حصہ لیا، کچھ سیٹوں پر کام یابی حاصل کی اور اس کے بعد اسرائیل کی دائیں بازو کی پارٹیوں کو حکومت بنانے میں سہارا دیا۔ اس کے بدلے انھوں نے عرب آبادی والے خطوں کی ترقی کے لیے بڑے بجٹ منظور کرائے۔

یہ تجربہ اسرائیل کے جنوبی علاقے میں، وہاں کے اسلام پسند سمجھے جانے والے سیاست داں منصور عباس کی قیادت میں کیا گیا۔ جب کہ شمالی علاقے کے اسلام پسندوں نے اس سے اختلاف کیا اور وہ شیخ رائد صلاح کی قیادت میں انتخابات کا بائیکاٹ کرنے کی پرانی روش پر قائم رہے۔

اس تجربے کو عام طور سے ملامت کا سامنا کرنا پڑا۔ تاہم ان کا موقف یہ ہے کہ جب ہم نے اس سرزمین پر رہنے کا فیصلہ کیا ہوا ہے، تو جب تک فلسطینیوں کو ان کے اصل حقوق نہیں مل جاتے، سیاسی طور پر مضبوط رہنا اور ریاست کے وسائل سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا سمجھ داری کا تقاضا ہے، تاکہ فلسطینی اپنی ہی سرزمین پر دن بدن سیاسی لحاظ سے بے اثر اور سماجی لحاظ سے پسماندہ نہ ہوتے چلے جائیں۔ یاد رہے کہ یہ بات اس خطے کی ہے جو غزہ اور مغربی کنارے کے باہر غاصب اسرائیل کے تحت ہے۔

بہرحال، اس تجربے کو بھی معروضی بحث ومباحثے کا حصہ بننا چاہیے۔ آزادی کی جدوجہد بھی جاری رہے اور سیاسی طور پر کم زوری بھی لاحق نہ ہو، اس کے بہترین طریقوں کی کھوج ہونی چاہیے۔

تیونس:  جمہوریت کا گلا گھونٹتا استبداد

عرب بہار کا آغاز تیونس سے ہوا اور وہیں اسے سب سے زیادہ کام یابی ملی۔ ملک میں تین مرتبہ شفاف پارلیمانی انتخابات ہوئے۔ اس دوران ملک کے آئین اور جمہوری نظام کو بار بار خطرات بھی پیش آتے رہے، تاہم اسلام پسند نہضہ پارٹی جو ہمیشہ اکثریت میں رہی، سیاسی سمجھوتوں اور تنازلات کے ذریعے سے ملک کو درپیش خطرات سے بچاتی رہی۔

اس وقت ملک کو ۲۰۱۱ء کے انقلاب کے بعد سے اب تک کے سب سے شدید بحران کا سامنا ہے۔ ۲۵ جولائی ۲۰۲۱ء کو تیونس کے صدر قیس سُعَید نے حکومت برخاست کرنے اور پارلیمنٹ معطل کرنے کا اعلان کردیا۔ اس اعلان کو ملک کی تمام جمہوری طاقتوں نے تشویش کی نگاہ سے دیکھا اور کھلے طور سے آئین کے خلاف بغاوت قرار دیا۔ دستوری بحران کی یہ صورت حال ہنوز جاری ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اس صورت حال کے پیچھے انقلاب مخالف ملکوں (مصر، عرب امارات وغیرہ ) کا بڑا ہاتھ ہے۔

نہضہ پارٹی اور اس کے صدر راشد غنوشی (صدر پارلیمنٹ) کا صورت حال کے ساتھ تعامل بڑی حکمت و تحمل سے عبارت ہے۔ اس حقیقت کا کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ عرب ملکوں میں جمہوریت اگر کہیں قائم ہے تو وہ اسلام پسند پارٹیوں کی قوت وکوشش سے ہی قائم ہے۔ مختلف ملکوں کے مسلسل تجربات یہ بتاچکے ہیں کہ دیگر پارٹیاں اپنے مفادات کی خاطر بہت آسانی سے جمہوریت کا سودا کرکے ملک کو استبداد کے حوالے کردیتی ہیں، خواہ وہ پارٹیاں جمہوریت اور آزادی کو اپنا خاص شعار بتاتی ہوں۔ تیونس میں بھی صورت حال یہی ہے۔ اس لیے وہاں انقلاب مخالف طاقتوں کا پہلا نشانہ نہضہ پارٹی ہی ہے۔

ملک اور بیرون ملک کے جمہوریت مخالف عناصر کا اندازہ یہ تھا کہ جس طرح مصر میں انارکی کو ختم کرنے کے نام پر اخوان کو جیلوں میں ٹھونس دیا گیا اسی طرح نہضہ پارٹی بھی احتجاج کرتے ہوئے سامنے آجائے گی اور اسے نشانہ بنانا آسان ہوجائے گا۔ لیکن نہضہ پارٹی کی قیادت نے ایسا نہیں ہونے دیا اور حکمت وتحمل کے ساتھ حالات کو بہتری کی طرف لانے کی کوشش کی۔ بار بار اپنے حصے کی غلطیوں کا اعتراف کیا، خود احتسابی کی سمت کام کیا اور صدر جمہوریہ سے گفتگو کی پیش کش کی۔اس دو ماہ کے دوران قیس سعید کے گرد اخلاقی گھیراؤ کا دائرہ تنگ ہوتا جارہا ہے، اور بین الاقوامی سطح پر ان کے لیے مشکلات بڑھ رہی ہیں۔

قیس سعید کی طرف سے نہضہ پارٹی پر کرپشن وغیرہ کے الزامات بھی عائد کیے جارہے ہیں، ان کے سلسلے میں بھی نہضہ پارٹی کا ردعمل بہت مثبت ہے۔ اور وہ ایسے تمام الزامات کی غیر جانبدارانہ تحقیق کا مطالبہ کر رہی ہے۔

واقعہ یہ ہے کہ تیونس میں جمہوریت بھی خطرے میں ہے، اور اسلامی تحریک کو بھی شدید خطرات درپیش ہیں۔تاہم راشد غنوشی کا ماننا ہے کہ اس اضطرابی صورت حال میں بھی مزید سیاسی اصلاحات کے راستے تلاش کرنے کا موقع ہے۔اس لیے ملک کو خانہ جنگی میں جانے سے روکا جائے اور آئینی نظام کو مزید مستحکم بنانے پر توجہ دی جائے۔

تیونس میں قیس سعید نے جیسے ہی پارلیمنٹ کو معطل کرنے اور حکومت کو تحلیل کرنے کا اعلان کیا، جو کھلی ہوئی آئین شکنی اور غیر اعلان شدہ بغاوت تھی، بہت سے لوگوں کی طرف سے جذباتی تجویزیں راشد غنوشی کا پیچھا کرنے لگیں۔ ان پر دباؤ ڈالا گیاکہ وہ نہضہ پارٹی کے کارکنوں کو لے کرسڑکوں پر اتریں اور صدارتی محل کو گھیر لیں۔ ان پر بزدلی اور بے ہمتی کے الزامات بھی لگائے گئے۔ لیکن راشد غنوشی نے کسی بھی طرح کا جذباتی قدم اٹھانے سے سخت پرہیز کیا۔ اس طرح ابھی تک ان کی پارٹی بھی محفوظ ہے، ملک بھی خانہ جنگی سے بچا ہوا ہے، اور آئین شکنی کرنے والوں کے گرد گھیرا بھی تنگ ہوتا جارہا ہے۔

مصر، ترکی اور اس کے بعد تیونس میں منتخب حکومت کے خلاف بغاوت کے مقابلے کے لیے تین طرح کے طریقے یا رویے اپنا ئے گئے۔ تینوں کے نتائج بھی الگ الگ سامنے آئے۔ سبق آموز پہلو یہ ہے کہ ایک جگہ کےتجربےسے دوسری جگہ فائدہ ضرور اٹھایا جاسکتا ہے لیکن اس کی ہو بہو نقل کرنا کبھی خود کشی کے مترادف ہوسکتا ہے۔ ترکی میں فوجی بغاوت ہوئی تو اس کے گھیراؤ کا راستہ کام یاب رہا، کیوں کہ کام یابی کے امکانات بہم موجود تھے۔مصر میں فوجی بغاوت کا سامنا کرنے کے لیے اخوان نے جو طریقہ اختیار کیا وہ مفید نہیں بلکہ بعض پہلوؤں سے نقصان دہ ثابت ہوا۔ یہ الگ بات ہے کہ انھوں نے اپنے امن پسند طویل احتجاج سے ساری دنیا کی بے ضمیری پر حجت تمام کردی۔(اللہ ان کی قربانیاں اور عزیمتیں قبول فرمائے)

ایک سبق یہ بھی سامنے آیا ہے کہ اگر عوام اور فوج میں فوجی بغاوت کو مسترد کرنے والے عناصر مضبوط تناسب میں نہ ہوں تو کوئی ایک پارٹی اسے اپنے بل پر نہیں روک سکتی ہے، خواہ وہ اکثریت میں کیوں نہ ہو۔ فوجی بغاوت میں عام طور سے اسلام پسندوں کو اپنے نرغے میں لینے والی کمین گاہیں ہوا کرتی ہیں، جذباتی فیصلے ان کمین گاہوں کا کام آسان کردیتے ہیں۔

کسی بھی ملک کی اسلامی تحریک کو سب سے بڑا خطرہ خود اس کے اپنے جذباتی فیصلوں سے ہوتا ہے۔اسلامک تحریک کوئی بچہ نہیں ہوتی ہے کہ اس کے ہاتھ سے کھلونا چھین لیا جائے تو وہ چیخ چیخ کر آسمان سر پر اٹھالیتا ہے، گویا اس سے اس کی پوری دنیا چھین لی گئی۔ اسلامی تحریک کو صبر وتحمل اور حکمت وعزیمت کے ساتھ بہت طویل رہ گزر طے کرنی ہوتی ہے۔وقتی نقصانات اس کی توانائی کو ضائع کردینے کا سبب نہیں بنتے۔

مراکش:  اسلام پسندوں کو انتخابی شکست کا پہلا تجربہ

۸ ستمبر ۲۰۲۱ء کو مراکش میں پارلیمانی انتخابات ہوئے اور اس کے نتائج نے سبھی کو ششدر کردیا۔ وہاں اسلام پسند پارٹی حزب العدالۃ والتنمیۃ (جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی) کو بڑی شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ ۲۰۱۶ء کے انتخابات میں اسے ۱۲۵ سیٹیں حاصل ہوئی تھیں اور وہ پہلے نمبر پر تھی، لیکن اس بار اسے صرف بارہ سیٹیں مل سکیں اور وہ آٹھویں نمبر پر چلی گئی۔

جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی کو ۲۰۱۱ء میں ۱۰۷ سیٹیں ملی تھیں اور اس کے لیڈر عبدالالہ بنکیران نے حکومت بنائی تھی۔ ۲۰۱۶ء میں اسے دوبارہ حکومت بنانے کا موقع ملا، لیکن اس بار چھ ماہ کے سیاسی تعطل کےبعد بنکیران کے بجائے سعد الدین عثمانی نے حکومت بنائی۔

یہ پہلا واقعہ ہے جب کسی اسلام پسند پارٹی کوانتخابات کے ذریعے حکومت سے دور ہونا پڑا۔اس سے پہلے یا تو فوجی بغاوت کے ذریعے انھیں ہٹایا گیا جیسا کہ مصر میں ہوا، یا پھر انتخابات کالعدم کرکے انھیں اقتدار سے دور کیا گیا جیسا کہ الجیریا میں ہوا، یا پھر ملک میں مصنوعی سیاسی بحران پیدا کرکے انھیں ہٹنے پر مجبور کیا گیا جیسا کہ تیونس میں ہوا۔

مراکش میں اسلام پسند پارٹی اس شکست سے دوچار کیوں ہوئی؟ یہ تجزیہ کاروں کے لیے خاص دل چسپی کا سوال ہے۔ اس پر گفتگو سے پہلے قریبی تاریخی پس منظر کو جان لینا ضروری ہے۔ ۲۰۱۱ء میں جب پڑوسی ملک تیونس میں عرب بہار کا آغاز ہوا تو مراکش میں بھی اس کی لہر دوڑ گئی۔ تیونس میں جمہوری ڈکٹیٹر شپ تھی، اور مراکش میں ۱۹۶۲ء سے دستوری بادشاہت تھی، اس میں بادشاہ کو زیادہ اختیارات حاصل تھے اور انتخابات کے ذریعے وزارت تشکیل پاتی تھی۔ انتخابات میں جیت اسی کو حاصل ہوتی جو دربار شاہی میں مقرب اور معتبر ہوتا۔عرب بہار کی لہرکے دوران ایک طرف بادشاہت کو چیلنج کرنے والی آوازیں تھیں تو دوسری طرف اسلام پسند پارٹی نے’ استقرار کے سائے میں اصلاح ‘کا نعرہ دیا جسے بڑے پیمانے پر پذیرائی ملی اور دربار شاہی نے بھی اس میں عافیت سمجھی۔ چناں چہ دستور میں تبدیلیاں کرکے منتخب حکومت کو مزید اختیارات دیے گئے اور ملک میں فوری انتخابات کرائے گئے۔ ان انتخابات میں جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی نے عبدالالہ بنکیران کی قیادت میں حکومت تشکیل دی۔بنکیران طاقت ور اور پرکشش شخصیت کے سیاست داں ہیں۔ تاہم اگلے انتخابات میں حکومت میں شریک دیگر پارٹیوں اور دربار شاہی کی طرف سے انھیں سازش کرکے پیچھے کردیا گیا اور سعد الدین عثمانی کو آگے بڑھایا گیا۔ سعد الدین عثمانی کی شخصیت بہت کم زور ثابت ہوئی۔اس دوسرے دورانیے میں دربار شاہی کی غلط پالیسیوں اور فیصلوں کا سارا وبال پارٹی کے سر آیا۔ ان کی کوشش یہ تھی کہ دربار شاہی ناراض نہ ہو، لیکن نہ دربار شاہی نے وفا کی اور نہ عوام نے رعایت کی۔ انتخابات میں بڑی کام یابی اس پارٹی کو ملی جو بادشاہ سے قربت کے لیے پہچانی جاتی ہے۔

متعدد اسلام پسند تجزیہ کاروں کا اس پر اتفاق ہے کہ مراکش میں جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی کی سب سے بڑی غلطی یہ تھی کہ اس نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بہتر تعلقات کی خاطر اور ٹکراؤ کی سیاست سے بچنے کے لیے اپنے اصولوں اور وعدوں کے سلسلے میں مداہنت کا رویہ اختیار کیا۔حکومت سازی کے لیے جن پارٹیوں کے ساتھ اس کا اشتراک تھا ان کے دباؤ کو قبول کرنا بھی یہاں کارفرما رہے۔

مختلف اصولوں اور نظریات کی حامل قوتوں کے ساتھ اشتراک عمل میں اسلامی تحریکات کے لیے بہت سخت امتحان ہوتا ہے۔ قدم قدم پر عملیت پسندی اور اصول پسندی کے بیچ مقابلہ درپیش ہوتا ہے۔ عملیت پسندی میں افراط بامقصد تحریکوں کی اخلاقی پوزیشن کو کم زور کرتا ہے۔تھوڑی دیر کے لیے رفتار تیز ضرور ہوجاتی ہے لیکن اصولوں کی قربانی دے کر طویل سفر طے نہیں کیا جاسکتا ہے۔

جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی نے سب سے بڑی ٹھوکر اس وقت کھائی جب دربارِ شاہی نے مراکش اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کی استواری کا فیصلہ کیا اور حکمراں پارٹی نے اپنے اصولی موقف پر سمجھوتا کرتے ہوئے اس میں ساتھ دیا۔ اس رویے نے ملک کے اسلام پسند حلقوں کو پارٹی سے بدظن کردیا۔

مراکش کا تجربہ بتاتا ہے کہ سیاست میں بھی دیگر کے ساتھ رواداری اسی وقت تک جائز ہے جب تک اپنے اصولوں پر آنچ نہ آتی ہو۔

بہرحال موجودہ انتخابی نظام میں اس کی گنجائش ہوتی ہے کہ ہارنے والی پارٹی اپنی ہار سے سبق لے،اپنی سا کھ بحال کرے اور اپنے کھوئے ہوئے کردار کی بازیافت کرے۔ امید ہے کہ مراکش کی اسلام پسند پارٹی اس ٹھوکر سے سبق لے گی، اپنا سخت احتساب کرے گی اور اپنی قوتوں کو از سر نو مجتمع کرکے مستقبل میں بہتر کارکردگی دکھائے گی۔

افغانستان میں طالبان کا سخت امتحان

دنیا میں مشکل ترین سیاسی امتحان سے اگر کوئی گزر رہا ہے تو وہ افغانستان کی موجودہ حکومت ہے۔طویل خانہ جنگی نے ملک کو تباہ کر دیا ہے اور ملک شدید افلاس کا شکار ہے۔ ملک چلانے کا تجربہ رکھنے والی سیاسی مشنری مفقود ہے۔ ایک طرف طالبان پر بین الاقوامی برادری کا دباؤ ہے کہ وہ جمہوری قدروں اور انسانی حقوق کی پاس داری کریں، دوسری طرف خود ان کے اندر مختلف موقف رکھنے والے دھڑے موجود ہیں۔ ایک بڑا چیلنج ملک میں پائی جانے والی مختلف مسلکی اور قبائلی وقومی شناختیں ہیں، ان کے درمیان حقوق ومفادات کی کشمکش ملک کے حالات کو ابتر کرسکتی ہے۔ تمدنی سطح پر قدیم روایتوں کے پاس بانوں اور جدید تبدیلیوں کے علم برداروں کے بیچ کشمکش کے بھی اندیشے ہیں۔

ایسی صورت حال میں گہرا سیاسی فہم وبصیرت اور بہت زیادہ وسعت نظری اور کشادہ دلی درکار ہے۔بہت اچھا ہوتا اگر طالبان ملک میں اپنی حکومت بنانے سے زیادہ عوام کو سیاسی طور پر زیادہ سمجھ دار اور با اختیار بنانے اور ایک بہتر اور پائیدار نظام حکومت قائم کرنے اور اسے مضبوط بنانے پر اپنی توجہ زیادہ صرف کرتے۔

معروف اسلامی مفکر وتجزیہ کار استاذ فہمی ہویدی نے بیس سال قبل کتاب لکھی تھی "طالبان:  جند الله فی المعركة الغلط" (طالبان:  اللہ کا لشکر جو غلط جنگ میں ملوث ہوگیا) اس میں وہ لکھتے ہیں:

 ’’طالبان نے باطل کو دھول چٹانے میں کچھ کام یابی ضرور حاصل کرلی، لیکن حق کو سربلند کرنے میں وہ ناکام رہے‘‘ ’’انھوں نے ماضی کے کھنڈرات پر کوئی قابل قدر تعمیر نہیں کی جس سے اسلام اور مسلمانوں کی عظمت میں اضافہ ہوتا‘‘وہ کہتے ہیں:  ’’طالبان کا تجربہ بے حد مفید ہے، اس طور سے کہ وہ ایک عملی نمونہ پیش کرکے بتاتا ہے کہ اسلام کے نفاذ میں کن چیزوں سے بچنا اور پرہیز کرنا ضروری ہوتا ہے۔‘‘

لیکن یہ بہرحال بیس سال پرانا تجزیہ ہے۔ تازہ صورت حال یہ ہے کہ مشرق ومغرب کے بہت سے تجزیہ کار کہہ رہے ہیں کہ طالبان بدل گئے ہیں۔ اس تبدیلی پر اعتماد کرتے ہوئے استا ذ محمد مختار شنقیطی سوال کرتے ہیں:

’’کیا طالبان کو اس کا ادراک ہے کہ اندرون ملک سماجی قوتوں کے ساتھ کشادہ ظرفی اور رواداری کے ساتھ تعامل کرنا ضروری ہے۔ قرآن کریم نے جس حکمت اور عمدہ نصیحت پر ابھارا ہے، اسے اختیار کرنا لازم ہے بجائے دینی اجارہ داری اور سیاسی زبردستی کے؟ کیا یہ تحریک اسے ضروری سمجھتی ہے کہ اس کے اقتدار کا بیس کشادہ تر ہو تاکہ مختلف دھڑوں پر مشتمل افغانی قوم کی زیادہ سے زیادہ نمائندگی ہوسکے اورشوری اور عدل کی کارفرمائی زیادہ سے زیادہ ہوسکے؟ کام یابی کوپائیدار استواری میں بدلنے کے لیے یہ لازمی شرط ہے، ورنہ جو کچھ ہوا ہے وہ محض طاقت کے توازن میں وقتی تبدیلی سے زیادہ کچھ نہیں ہوگا۔ کیا طالبان کو اس کا ادراک ہے کہ آج افغانی قوم کو اس طاقت کی زیادہ ضرورت ہے جو اس کے زخموں پر مرہم رکھے، اس کے دلوں میں امنگوں کو تازہ کرے، پاکیزگی اور سماجی خدمت میں اس کے لیے نمونہ بنے، اس کی ضرورت نہیں ہے جو اوپر سے آکر اقدار واخلاق سے متعلق اپنے نقطہ نظر کو قوت وجبر سے مسلط کرے؟ ‘‘

استاذ شنقیطی کے مطابق اگر ایک طرف یہ بات اطمینان بخش ہے کہ طالبان سابقہ حکومتوں کے اہل کاروں کے ساتھ کشادہ ظرفی کا معاملہ کررہے ہیں اور بین الاقوامی سطح پر مذاکرات میں سمجھ داری والی زبان استعمال کررہے ہیں، تو دوسری طرف تشویش ناک امر یہ ہے کہ حکومت کی شکل وصورت سے متعلق ان کے بیانات بتارہے ہیں کہ اسلامی حکومت کے سلسلے میں ان کا تصور محدود اور تاریخ کی کچھ خاص شکلوں تک ہی سکڑا ہوا ہے۔ یہ چیز ان کے لیے نقصان دہ ہوگی۔

مختلف ملکوں کی صورت حال کا یہ سرسری جائزہ بتاتا ہے کہ امت شدید سیاسی بحران کا شکار ہے۔منظر نامے مختلف ہیں، لیکن ہر جگہ بحرانی کیفیت ہے۔ افغانستان میں ملک کو جمہوری ڈگر پر لانے کا چیلنج درپیش ہے۔ لیبیا میں ملک کو انارکی سے نکالنا بڑا چیلنج ہے۔تیونس میں جمہوریت کا گلا گھونٹا جارہا ہے۔ مراکش میں دربارِ شاہی اور ڈیپ اسٹیٹ سے آزادی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ اس کے علاوہ یمن اور شام میں خانہ جنگی تھمنے کا نام نہیں لے رہی ہے۔ بعض ممالک میں نمائشی جمہوریت سے عوام کو بہلایا جارہا ہے، اور کہیں جمہوریت ہے تو ملک سیاسی کرپشن کی دلدل میں پھنسا ہوا ہے۔مسلم ملکوں کی بڑی تعداد آمریت کے شکنجے میں کسی ہوئی ہے۔کہیں عریاں آمریت تو کہیں جمہوریت کے پردے میں پوشیدہ آمریت۔

 اس کیفیت سے نکلنے کا راستہ ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ مسلم امت کو استبداد سے پاک اور اقدار پر مبنی،مستحکم سیاست کی راہ دکھائی جائے۔ سیاسی ارادہ، سیاسی مزاج اور سیاسی نظام جب تک بالیدہ اور مضبوط نہیں ہوں گے، استبداد اور انارکی کے بیچ مسلم اقوام پستی اور کراہتی رہیں گی۔

ایسے دل شکن حالات میں امیدوں کا مرکز اسلامی تحریکات ہی ہیں۔ ان کی کام یابی کے لیے ضروری ہے کہ ایک طرف وہ روحِ جہاد سے سرشار ہوں تو دوسری طرف سیاسی شعور سے معمور ہوں۔ کیوں کہ یہ منزل سخت جدوجہد، بے حساب قربانیوں اور پختہ سیاسی شعور کے بغیر سر نہیں کی جاسکتی ہے۔

(بشکریہ: زندگی نو، دہلی)