آخری نظم: سنو تم لوٹ آؤ نا
دسمبر کو ہمیشہ شاعروں نے
درد کے ، تنہائیوں کے
موت کے
پت جھڑ ، اکھڑتی سانس
اور رسوائیوں کے نام سے
منسوب رکھا ہے
چلو اب ایسا کرتے ہیں
کہ جاتے سال کو ان
آخری چند ساعتوں میں
کچھ انوکھے استعاروں سے
خزاں میں بھی بہاروں سے
ٹھٹھرتے ، سرد لمحوں کو
محَبّت کے شراروں سے
وفاؤں سے
اداؤں سے
لرَزتی بھیگتی پلکوں
سے مانگی کچھ دعاؤں سے
فنا کے راستے پر چھوڑ آتے ہیں
چلو مَیں ہنس کے اِک
امید کی شمّع جلاتا ہوں
وفا کی راہ پر ان بھولے بھٹکوں کو
نئی راہیں بتاتا ہُوں
چلو مَیں نامکمل الفتوں کے
اور ادھوری داستانوں کے زمانے میں
مکمل داستاں اِک چھوڑ جاتا ہوں
سنو مَیں مسکراتا ہوں
سو تم بھی مسکراؤ نا
سنو، تم لوٹ آو نا