آخری تماشائی

اٹھو کہ وقت ختم ہو گیا
تماش بینوں میں تم آخری ہی رہ گئے ہو


اب چلو
یہاں سے آسمان تک تمام شہر چادریں لپیٹ لی گئیں


زمین سنگ ریزہ سخت
دانت سی سفید ملگجی دکھائی دے رہی ہے ہر طرف


تمہیں جہاں گمان سبزہ تھا
وہ جھلک رہی ہے کہنہ کاغذوں کی برف


وہ جو چلے گئے انہیں تو اختتامیے کے سب سیاہ منظروں کا علم تھا
وہ پہلے آئے تھے اسی لیے وہ عقل مند تھے تمہیں


تو صبح کا پتہ نہ شام کی خبر تمہیں تو
اتنا بھی پتہ نہیں کہ کھیل ختم ہو تو اس کو شام


کہتے ہیں اے ننھے شائقان رقص
اب گھروں کو جاؤ