آخری آدمی کا رجز
مصاجبین شاہ مطمئن ہوئے کہ سرفراز سر بریدہ بازوؤں سمیت شہر کی فصیل پر لٹک رہے ہیں
اور ہر طرف سکون ہے
سکون ہی سکون ہے
فغان خلق اہل طائفہ کی نذر ہو گئی
متاع صبر وحشت دعا کی نذر ہو گئی
امید اجر بے یقینیٔ جزا کی نذر ہو گئی
نہ اعتبار حرف ہے نہ آبروئے خون ہے
سکون ہی سکون ہے
مصاحبین شاہ مطمئن ہوئے کہ سرفراز سر بریدہ بازوؤں
سمیت شہر کی فصیل پر لٹک رہے ہیں اور ہر طرف سکون ہے
سکون ہی سکون ہے
خلیج اقتدار سرکشوں سے پاٹ دی گئی
جو ہاتھ آئی دولت غنیم بانٹ دی گئی
طناب خیمۂ لسان و لفظ کاٹ دی گئی
فضا وہ ہے کہ آرزوئے خیر تک جنون ہے
سکون ہی سکون ہے
مصاجبین شاہ مطمئن ہوئے کہ سرفراز سر بریدہ بازوؤں سمیت شہر کی فصیل پر لٹک رہے ہیں
اور ہر طرف سکون ہے
سکون ہی سکون ہے