مسئلہ نصاب کا: بچوں کے اذہان کو معلومات کا کباڑخانہ مت بنائیے!
ساری دنیا میں دو طرح کے نصاب تعلیم ہیں:ایک جو وہ پھیلاؤ میں مرتب کیے جاتے ہیں اور دوسرے جو گہرائی میں ترتیب دیے جاتے ہیں۔ بہت سے اور ملکوں کی طرح ہم بھی نصاب کے پھیلاؤ کو اپنی تعلیمی میدان میں کامیابی سمجھتے ہیں اور جس کا خمیازہ بچوں اور ان کے والدین کو بھگتنا پڑتا ہے ۔
پھیلاؤ کو مد نظر رکھ کر تیار کیا گیا نصاب ایک مضمون میں موضوعات کی افراط پر یقین رکھتا ہے ۔ اس نظریے کے ماننے والے تعلیم دان اس بات کے حامی ہیں کہ بچوں کو جس قدر زیادہ ہو سکے ، نئے موضوعات سے روشناس کروا دیا جائے ۔ یہ تعلیم دان اس بات کی اہمیت کو نظر انداز کرتے ہیں کہ بچے کو کسی ایک موضوع پر عبور حاصل کرنے کے لئے مشق اور وقت دونوں چاہئے ۔ پہلی قسم کی مثال پاکستان، برطانیہ، اور کسی حد تک امریکہ میں بھی ملتی ہے ۔
دوسری طرف گہرائی میں مرتب کیا گیا نصاب اس بات کو مد نظر رکھ کر بنایا جاتا ہے کہ طالب علم ایک ہی موضوع کو اچھی طرف جان پرکھ لے ۔ یہ نصاب تعلیم طالب علم کو موقع دیتا ہے کہ وہ کم موضوعات کو لے کر اس پر عبور حاصل کر لے ، اس سے پہلے کہ وہ کسی نئے موضوع کو جاننے کے لئے تیار ہو۔ دوسری قسم کی مثال دینے کے لئے جاپان کا نام سامنے آتا ہے جہاں حساب جیسے مضمون کو لے کر ایک جماعت میں ایک موضوع کو لے کر مہینوں صرف کیے جاتے ہیں، جب تک کہ طالب علم اس پر عبور حاصل نہ کر لیں۔
ہمارا نصاب تعلیم:
جہاں ہمارے نصاب تعلیم نے بچوں کو بدحواس کیا ہوا ہے ، وہیں والدین کو بھی بوکھلا دیا ہے ۔ جو والدین کچھ عرصہ پہلے تک اپنے بچوں کو بخوبی پڑھا لیا کرتے تھے ، اب وہ اپنے بچوں کو نام نہاد "ٹیوشن سینٹرز" بھیجنے پر مجبور ہیں۔ جیسے جیسے پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں اضافہ ہو رہا ہے ، اس کے ساتھ ساتھ ہر گلی میں ٹیوشن سینٹرز بھی بن رہے ہیں۔ نصاب تعلیم کو اسقدر وسیع کر دیا گیا ہے کہ ایک عام تعلیم یافتہ شخص اپنے بچوں کو بمشکل ہی پڑھا پاتا ہے ۔
پہلی سے لے کر پانچویں تک غیر ضروری کتب کا انبار ہے جو بچوں کے سر کے اوپر سے گزر جاتا ہے مگر اس کتاب کا سالانہ امتحان پاس کرنا ترقی کا زینہ سمجھا جاتا ہے ۔ کیا یہ سب کتب واقعی میں ہماری معاشرتی اور سائنسی ترقی میں کوئی حصہ ادا کر رہی ہیں یا پھر تعلیمی ادارے ایک مفروضے کو لے کر ساری قوم کو بیوقوف بنا رہے ہیں؟
تعلیمی میدان میں تحقیق نے ثابت کر دیا ہے کہ بچے کے لئے مقامی زبان اور حساب میں عبور سب سے اہم ہے۔ جو بچے کتاب پڑھنا جان جاتے ہیں، وہ ہر میدان میں آگے نکل جاتے ہیں۔ ہمارا اپنا مشاہدہ بھی بتاتا ہے کہ کتاب پڑھنے والا بچہ عموماً نہ پڑھنے والے سے آگے نکل جاتا ہے ۔ چار سے دس سال کے بچے کے لئے جو سب سے بنیادی اور اہم چیز ہے ، وہ ہے اس کا سمجھ کر پڑھنا اور پھر لکھنا ہے ۔۔۔۔اس کے ساتھ ساتھ حساب پر عبور بھی کامیابی کی علامت ہے ۔ ایسے میں سائنس، معاشرتی علوم، اور اسلامیات کو آسانی سے اردو یا انگریزی کے نصاب کا حصہ بنایا جا سکتا ہے ۔
کوئی بھی نصاب تعلیم کو سمجھ سکنے والا شخص آپ کو بخوبی بتا سکتا ہے کہ ہمارے نصاب میں ٹھونس ٹھونس کا مواد بھرا گیا ہے ۔ ہمارا نصاب تعلیم مرتب کرنے والوں نے معیار سے زیادہ تعداد کو کامیابی کی کنجی سمجھ رکھا ہے اور اسی پر عمل پیرا ہوتے ہوئے ایک بے مقصد ذخیرہ معلومات کو نصاب کا نام دے دیا ہے ۔ پہلی سے لے کر انٹرمیڈیٹ تک، ایک ملغوبہ ہے جو طلبہ کو گھول کر پلایا جا رہا ہے ۔ اور پھر جب اس ملغوبے سے تیار شدہ طالبعلم فسٹ ڈویژن لے کر آتے ہیں تو ہم اپنے ہی نظام تعلیم کو "انٹری ٹیسٹ" کے سامنے چیلنج کرتے ہیں اور اس کی ناکامی کو تسلیم کرتے ہیں۔ مگر اس سب میں مزے کی بات تو یہ ہے کہ اس بوجھ کے بعد بھی ہمارے سرٹیفکیٹ، ہمارے ڈپلومے ، اور ہماری ڈگریاں باہر کی دنیا میں ایک کاغذ کے ٹکڑے سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے اور ہمیں "SAT, GMAT, MCAT" وغیرہ کا سہارا لینا پڑتا ہے ۔
مسئلے کا حل:
ہم ہر مسئلے کا حل مسئلے کو مزید پیچیدہ کر کے نکالتے ہیں۔ مگر ہمارا تعلیمی نظام اب کسی قسم کی پیچیدگی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ آسان اور سادہ راستہ اپنایا جائے اور بتدریج اسی نظام کو عالمی نظام کے برابر لایا جائے ۔ اگر پہلی سے پانچویں تک کے نصاب پر نظر ثانی کی جائے اور کتابوں کی تعداد کو کم کر کے دو پر لے آیا جائے تو بہت سے مسائل یہیں حل ہو جائیں گے ۔
پرائمری تعلیم:
بنیادی تعلیم میں اردو، حساب، اور انگریزی کو جگہ دی جائے ۔ کتاب کا استعمال صرف اردو اور انگریزی کے لئے کیا جائے ۔حساب، اسلامیات، معاشرتی علوم، اور سائنس کے لئے صرف نصاب ہو جسے کوئی ٹرینڈ استاد بآسانی پڑھا سکتاہے ۔ پاکستان جیسے ملک میں انگریزی پرائیویٹ اور کونونٹ سکولوں میں ماضی میں ایسا ہو تا رہا ہے اور اب بھی اسی طریقہ کار کو رائج کرنا کوئی ایسی ناممکن بات نہیں ہے ۔
ہمارا سارا زور اس بات پر ہونا چاہئے کہ ہمارے بچے پہلی سے لے کر پانچویں تک اردو پر مکمل عبور حاصل کر لیں اور نا صرف پڑھنے بلکہ لکھنے اور مضمون نویسی میں بھی ماہر ہو جائیں۔ بے شک کہ ہر زبان کے قاعدے اور قوانین ایک دوسرے سے فرق ہوتے ہیں مگرتنقیدی نظر سے تحریر کا جائزہ لینا اور اس کو سمجھ کر پڑھنا ہی کسی طالب علم کی کامیابی کی دلیل ہے ۔ اگر ہمارا طالبعلم اردو میں ماہر ہو جائے تو وہ کسی بھی زبان پر عبور حاصل کر سکتا ہے ۔
اس کے بعد باری آتی ہے حساب کی۔ حساب کو انگریزی اور فرانسیسی سے زیادہ عالمی زبان سمجھا جاتا ہے ۔ اب جو قومیں حساب اور علم ہندسہ میں ماہر ہیں، وہ ہر علم میں آگے نکل رہی ہیں۔ قومی زبان کے بعد ہمارا زور حساب کی تعلیم پر ہونا چاہئے ۔ مگر اس میں ہمیں پھیلاؤ سے زیادہ گہرائی پر نظر رکھنی ہو گی۔ ہم نے عرصہ دراز تک حساب کو بھی اردو اور انگریزی سمجھ کر پڑھایا ہے اور سمجھ سے زیادہ رٹے کو اہمیت دی ہے ۔ اب ہمیں اس کے نصاب پر ایک اور نظر ڈالنی ہو گی اور اسے مشکل سے زیادہ مفید بنانا پڑے گا۔
اگر اردو کے ساتھ ساتھ ہم انگریزی کو پڑھانا لازم ہی سمجھتے ہیں تو پھر ہمیں اسے ایک "فارن لیگویج" کے طور پڑھانا پڑے گا کیونکہ یہ تو ہم جان ہی چکے ہیں کہ بطور "سیکنڈ لینگویج" ہم اسے پڑھانے میں ناکام ہو چکے ہیں۔ ہمیں انگریزی کے اساتذہ کو بطور خاص ایک نئی زبان پڑھانے کی ٹریننگ دینی پڑے گی تاکہ ہمارا طالبعلم باہر کی دنیا مین انگریزی کے دو جملے سن کر حواس باختہ نہ ہو جائے ۔
بہت سے قاری اس بات پر حیران ہو رہے ہوں گے کہ میں نے اسلامیات پر بات کیوں نہیں کی یا اس کو اسقدر کم اہمیت کیوں دی ہے ۔ ایسا بالکل نہیں ہے ! میرا نظریہ یہ ہے کہ اسلامیات پڑھنے کے لئے کسی کتاب یا ورک بک کا ہونا ضروری نہیں ہے ، ہاں مگر مفصل نصاب کا ہونا بہت ضروری ہے ۔ اگر اسلامیات کو تھوڑی دیر کے لئے ایک مضمون سمجھ لیا جائے تو اسے ایک قابل اور ٹریننڈ استاد بغیر کسی کتاب کے بخوبی پڑھا سکتا ہے ۔ ویسے دیکھا جائے تو اسلام کوئی مضمون نہیں ہے بلکہ یہ ایک دین ہے ۔ دین پر عمل کیا جاتا ہے پڑھایا نہیں جاتا اور عمل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ دین کی سمجھ بوجھ دی جائے نا کہ اسے پڑھایا یا رٹوایا جائے ۔ اس تناظر میں اگر آپ دیکھیں تو دن میں ایک گھنٹہ قرآن اور حدیث کی تعلیم زبانی بھی دی جائے تو نتائج شاید کتابوں کے بوجھ سے بہت فعال اور بہتر ہوں گے ۔
اسی طرح معاشرتی علوم اور سائنس کی تعلیم بھی اردو نصاب کا ہی حصہ ہونا چاہئے یا پھر زبانی اور عملی تعلیم دی جائے ۔ اب تک کے طریقہ کار سے نہ تو ہمارے معاشرتی نظام میں کوئی بہتری آئی ہے اور نہ ہی سائنس کے میدان میں ترقی ہوئی ہے ۔ اس لئے اب وقت آ گیا ہے کہ ہم اس کو عملی طور پر پڑھائیں اور صرف کتابوں کا سہارا لے کر رٹے کو تقویت نہ پہنچائیں۔
اپنے ملک کے ماحول کو مد نظر رکھتے ہوئے اس بات کو یقینی بنانا بھی ضروری ہے کہ تعلیم کا عمل صرف سکول تک محدود ہو اور طالبعلم کو "ہوم ورک" ہفتے میں صرف دو سے تین بار دیا جائے ، وہ بھی صرف ایک وقت میں ایک مضمون کا۔ ہمارے ملک کے ناخواندگی کے تناسب کو دیکھتے ہوئے اساتذہ کو یہ علم ہونا چاہئے کہ ہمارے طالب علم کو گھر سے کوئی تعلیمی مدد نہیں ملتی۔ اس کے لئے والدین کو پھر سے ٹیوشن سینٹرز کا رخ کرنا پڑے گا۔ گھر کے لئے صرف وہ کام دیا جائے جو بچہ کسی مشکل اور تردد کے بغیر خود سے کر لے ۔ تعلیمی تحقیق یہ ثابت کرتی ہے کہ پہلی اور دوسری جماعت کے بچے کے لئے تیس سے چالیس منٹ کا کام، ہفتے میں دو سے تین بار کافی ہے ۔ اس کام میں پانچویں جماعت تک ہر سال دس سے بیس منٹ کا اضافہ کیا جا سکتا ہے ۔ طلبہ کو کوئی کام دینے کا اصول ہے کہ استاد وہ کام خود سے ایک تہائی وقت میں کر لے !