آج تنہائی نے تھوڑا سا دلاسہ جو دیا
آج تنہائی نے تھوڑا سا دلاسہ جو دیا
کتنے روٹھے ہوئے ساتھی مجھے یاد آئے ہیں
موسم وصل کی کرنوں کا وہ انبوہ رواں
جس کے ہم راہ کسی زہرہ جبیں کی ڈولی
ایسے اتری تھی کہ جیسے کوئی آیت اترے
ہجر کی شام کے بکھرے ہوئے کاجل کی لکیر
جس نے آنکھوں کے گلابوں پہ شفق چھڑکی تھی
جیسے خوشبو کسی جنگل میں برہنہ ٹھہرے
خلقت شہر کی جانب سے ملامت کا عذاب
جس نے اکثر مجھے ہونے کا یقیں بخشا تھا
دست اعدائیں وہ کھنچتی ہوئی تہمت کی کماں
بارش سنگ میں کھلتی ہوئی تیروں کی دکاں
مہرباں دوست رفاقت کا بھرم رکھتے ہوئے
اجنبی لوگ دل و جاں میں قدم رکھتے ہوئے
آج تنہائی نے تھوڑا سا دلاسہ جو دیا
کتنے روٹھے ہوئے ساتھی مجھے یاد آئے ہیں
اب نہ پندار وفا ہے نہ محبت کی جزا
دست اعداء کی کشش ہے نہ رفیقوں کی سزا
تختۂ دار نہ منصب نہ عدالت کی خلش
اب تو اک چیخ سی ہونٹوں میں دبی رہتی ہے
راس آئے گا کسے دشت بلا میرے بعد
کون مانگے گا اجڑنے کی دعا میرے بعد
آج تنہائی نے تھوڑا سا دلاسہ جو دیا