آج پھر اس دل نشیں پر آ گیا ہے

آج پھر اس دل نشیں پر آ گیا ہے
دل جہاں تھا پھر وہیں پر آ گیا ہے


ایک شہزادے خدا کے آسرے پر
کوفیوں کی سرزمیں پر آ گیا ہے


سر نگوں جب سے کیا ہے تیرے آگے
آسماں میری جبیں پر آ گیا ہے


وہ جو کل تک ہاں میں ہاں کرتا تھا میری
آج تو وہ بھی نہیں پر آ گیا ہے


خواب میں ابلیس نے آ کر بتایا
آدمی آدم کے دیں پر آ گیا ہے


تجھ سے پہلے بھی مکاں خالی نہیں تھا
تو مگر اس کے مکیں پر آ گیا ہے


مجھ سے مومنؔ کا پتہ کیا پوچھتے ہو
آنکھ کھولو وہ یہیں پر آ گیا ہے