آج کے دن کو یوں بھر جاؤں گا
آج کے دن کو یوں بھر جاؤں گا
بن کے اک عمر گزر جاؤں گا
صبح میں پیدا ہوا تھا پھر سے
اور پھر رات کو مر جاؤں گا
میں تعاقب میں ہوں اپنے دل کے
یہ جدھر جائے ادھر جاؤں گا
یہ صلیب اور یہ کیلیں مجھ سے
جو نکالو گے بکھر جاؤں گا
اس لڑائی میں مرے ڈر سے مری
چھوڑ کر اپنی سپر جاؤں گا
ہار کے بھی مجھے جانا جو پڑے
میں جھکا کے نہیں سر جاؤں گا
منزلیں نام تمہارے کر کے
ساتھ میں لے کے ڈگر جاؤں گا
ختم میرا یہ سفر ہوگا نہیں
راستے میں ہو تو گھر جاؤں گا
بعد میرے نہ بھری جائے گی
وہ جگہ دل میں میں کر جاؤں گا
مستحق آنکھ ملے گی جو کہیں
دے کے اس کو میں نظر جاؤں گا
کچھ گھڑی ساتھ نبھا بھی دوں تو کیا
آخرش تو میں مگر جاؤں گا
پیاس کو رکھ کے کنارے اس کے
یہ جو صحرا ہے میں تر جاؤں گا