آج بھی یاد یار باقی ہے
آج بھی یاد یار باقی ہے
عشق کا اعتبار باقی ہے
زندگی کی رمق ہے ہم میں ابھی
آپ کا انتظار باقی ہے
یادگار جنوں ہمارے پاس
دامن تار تار باقی ہے
پھر رہے ہیں صلیب اٹھائے ہم
ہاں ابھی وصل دار باقی ہے
یہ امیدیں نہ چھین لیں حالات
بس یہی اختیار باقی ہے
لفظ و معنی کی وسعتوں کے ساتھ
شعر کا اختصار باقی ہے
مرحبا عشاقان حق تم سے
کچھ امید بہار باقی ہے