آہ کو جو کہوں برائی کی
آہ کو جو کہوں برائی کی
بخت نے کون سی رسائی کی
مہرباں وہ ہوئے تو حیراں ہوں
ان سے کیا میں نے بے وفائی کی
اس کے رفع گمان بد کے لئے
مدتوں ہم نے پارسائی کی
ضعف میں سر ہلا نہ بالیں سے
گو بہت طاقت آزمائی کی
سب سے بیگانہ ہم رہے عارفؔ
دوستی کی نہ آشنائی کی