آئے بالیں پہ مرے عیسی دوراں ہو کر

آئے بالیں پہ مرے عیسی دوراں ہو کر
کیوں مگر بیٹھ گئے سر بہ گریباں ہو کر


رونق بزم تو ہوں صورت پروانہ مگر
آزمائیں تو مجھے شمع فروزاں ہو کر


نہ تو جینے کا مزہ ہے نہ سکوں مرنے میں
زندگی رہ گئی اک خواب پریشاں ہو کر


ہم نفس پوچھ تو لے حال نشیمن بھی ذرا
برق صیاد کے گھر آئی گلستاں ہو کر


نہ رہی تاب نظر لطف تماشا معلوم
کیا کیا آپ کے جلوؤں نے پریشاں ہو کر


درد بھی تم نے دیا ہے تو دوا بھی تم دو
میرے پہلو میں رہو درد کا درماں ہو کر


بے بس اتنے ہوئے کیوں عشق بتاں میں ذاکرؔ
کفر بکنے لگے اک مرد مسلماں ہو کر