آدھی رات کا سورج
کسی چوکھٹ پہ چوکیدار لاٹھی کھٹکھٹاتا ہے
وہ کھڑکی کھل گئی
اک ریلوے انجن تھکی ہاری بسیں کج بحث کتے
الجھنیں محرومیاں
لو پھر قطار اندر قطار آئیں
وہ کھڑکی کھل گئی
پھر موت در آتی چلی آئی
تمہارے صحن میں کیلے کے پتے جانکنی میں سر پٹکتے ہیں
سنا پھر بلیاں اس ٹین کی چھت پر
ہراساں پھر رہی ہیں
صبح کی پہلی کرن کے جاگنے تک
موت ہر موذی روح کو
بے روح کو
ڈستی روح کو
صبح تک ڈستی چلی جائے گی
لیکن وقت کے اس بے اماں گوشے میں
تم زندہ رہو گے
تم جو کل تک موت کی تاریک راتوں میں رہے
اس رات اک سورج کے مالک ہو
کسی نے اس دریدہ آستیں پر آج
اک آنسو سجایا ہے