آبو میں برسات
ابر یوں چھا رہا ہے آبو پر
جیسے پہرا ہو دھندلی شاموں پر
یا کہ آئیں نظر سیہ سائے
لرزاں لرزاں بلوری جاموں پر
یہ گھٹا چھا رہی ہے ساون کی
زلف بکھری ہے یا ترے رخ پر
بادلوں میں چمکتی ہے بجلی
ہنسی پھوٹی ہے یا ترے رخ پر
گرتی ہے بادلوں سے یوں بوندیں
جام لبریز جوں چھلکتا ہے
جھومتے ہیں ہوا سے یوں اشجار
رند پی پی کے جوں بہکتا ہے
سبزہ پھوٹا ہے یہ پہاڑوں پر
یا کوئی نرم پیرہن ہے یہ
ہے یہ رنگ بہار زیب نظر
سبز جوڑے کی یا پھبن ہے یہ
جھیل سے یوں لپٹ گیا کہرا
بچہ اک ماں سے جوں لپٹ جائے
یا کہ بچھڑی ہوئی سی دوشیزہ
آ کے آغوش میں سمٹ جائے
چیر کے بادلوں کو ایک کرن
دفعتاً جھیل پر تھرک جائے
جس طرح اک عروس نو کا کہیں
رخ سے آنچل کبھی سرک جائے
دور کہسار میں یہ گرتے ہوئے
ساز بجتے ہیں آبشاروں کے
قہقہے جیسے نقرئی سے کہیں
گونج اٹھتے ہیں ماہ پاروں کے
کالے اجلے سے تیرتے بادل
جھیل کی سطح پر چمکتے ہیں
نقش جس طرح رنج و راحت کے
دل کے آئینے میں جھلکتے ہیں
ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں میں
یوں مرا اضطراب کھو جائے
جیسے روتا بسورتا بچہ
گود میں ماں کی تھک کے سو جائے
ایک چنچل ہوا کے جھونکے سے
سطح ہموار آب ہل جائے
جیسے باد صبا کی جنبش سے
غنچۂ نیم باز کھل جائے
گونج کر جیسے نے نواز کی نے
شب کا سناٹا توڑ دیتی ہے
یوں ہی سوئے ہوئے مرے دل کو
یاد کوئی جھنجھوڑ دیتی ہے
جھانک کر بادلوں کی اور سے یوں
جھیل پر چاند تھرتھراتا ہے
جیسے ماضی کے دھندلکوں سے کہیں
اک حسیں چہرہ مسکراتا ہے