آبلہ

اداسی کے افق پر جب تمہاری یاد کے جگنو چمکتے ہیں
تو میری روح پر رکھا ہوا یہ ہجر کا پتھر
چمکتی برف کی صورت پگھلتا ہے!
اگرچہ یوں پگھلنے سے یہ پتھر، سنگ ریزہ تو نہیں بنتا!
مگر اک حوصلہ سا دل کو ہوتا ہے،
کہ جیسے سر بسر تاریک شب میں بھی
اگر اک زرد رو، سہما ہوا تارا نکل آئے
تو قاتل رات کا بے اسم جادو ٹوٹ جاتا ہے
مسافر کے سفر کا راستہ تو کم نہیں ہوتا
مگر تارے کی چلمن سے
کوئی بھولا ہوا منظر اچانک جگمگاتا ہے!
سلگتے پاؤں میں اک آبلہ سا پھوٹ جاتا ہے