آ کہ چاہت وصل کی پھر سے بڑی پر زور ہے

آ کہ چاہت وصل کی پھر سے بڑی پر زور ہے
آ کہ دل میں حسرتوں نے پھر مچایا شور ہے


آ کہ اب تو دور تک خوشبو کی چادر بچھ گئی
آ کہ رخ باد صبا کا اپنے گھر کی اور ہے


آ کہ پھر سے چاند پر دل کش جوانی آ گئی
آ کہ پھر سے آج کل انگڑائیوں کا زور ہے


آ کہ کلیوں کے چٹخنے کا وہ موسم آ گیا
آ کہ دل میں دھڑکنوں کا اک انوکھا شور ہے


آ کہ جگنو کر رہے راتوں میں تیکھی روشنی
آ کہ پھر سے رقص میں کالی گھٹا گھنگھور ہے


آ کہ پھر بادل ترے آنے کی دیتے ہیں خبر
آ کہ پھر اب مستیوں میں اپنے من کا مور ہے


آ کہ اب تو دم بھی ہے جیسے لبوں تک آ گیا
آ کہ تیرے ہاتھ میں اب زندگی کی ڈور ہے


آ کہ موسم کا اثر عازمؔ پہ اب ہونے لگا
آ کہ طاقت ضبط کی اب ہو چلی کمزور ہے