آ جاؤ
آ جاؤ پانی کے گھرے تال میں پتھر صاف نظر آتے ہیں
کھڑکی کے پیچھے چہروں میں سیسہ بھرتا جاتا ہے
رات اکیلی آنگن آنگن اپنے رسی پھینکتی ہے
اونچی حویلی کے دالان سے پکے بیر اٹھا کر
تیرے خال و خط کا بوسہ لیتا ہوں
اور ہوا کی دھوپ ملی چادر کے نیچے سو جاتا ہوں
جلتا جسم پہاڑ سے دن اور لوہے کی باڑوں میں جھلسے کھیت
منکا منکا آنسو گرنے کو ہیں
چڑیاں خوابوں کے جزداں میں ورق الٹتی ہیں
پھول بدن کی ٹہنی پر سے ٹوٹ کے گرتے جاتے ہیں
آ جاؤ ٹھنڈا پانی شربت بن کر بلک رہا ہے
جسم بخار سے پیلا پھول بنا ہے