قبیح لمحوں کا دیوتا
ابھی فقط تین ہی بجے ہیں
ابھی تو اس کی رگوں کی کچھ اور روشنائی
تنی ہوئی میز پر پڑے
فائلوں کے کاغذ میں جذب ہوگی
ضرورتیں
اس کے ریگ زار حیات کے
ننھے ننھے پودوں کی آبیاری
کسی کے نازک اداس ہونٹوں پہ
مسکراہٹ کی لالہ کاری
گداز بانہوں کے نرم حلقے میں
گرم سانسوں کی شب گزاری
ضرورتوں کا وہ اک پجاری
جو اپنے سارے لہو کے غنچے
مسافت آفتاب کے
دس سے پانچ تک کے
قبیح لمحوں کے دیوتا کے قدم پہ
قربان کر رہا ہے
وہ دیوتا
جس نے سالہا سال کی ریاضت
اور اس کے علم و صلاحیت کے گواہ
ان ڈگریوں کے الفاظ کو
جو اس سے لباس مفہوم چاہتے تھے
برہنگی دی
ضرورتیں
اس کی ننھے پودوں
اداس ہونٹوں
گداز بانہوں کی روز کی ہیں
ضرورتوں کا وہ اک پجاری
لہو کے غنچوں کا یہ چڑھاوا تو روز کا ہے
ابھی فقط تین ہی بجے ہیں