بادہ 12 ربیع الاول: عشرہ شانِ رحمۃ للعالمین ﷺ پر سکول طلبہ کے لیے بہترین تقریر
ربیع الاول کا مبارک مہینہ شروع ہونے والا ہے۔ خاتم النبیین ﷺ کی ولادت باسعادت کے موقع پر سکول اور مدرسے کے طلبہ و طالبات کے لیے تقاریر کا سلسلہ شروع کیا جارہا ہے۔ اس سلسلے کی پہلی تقریر پیشِ خدمت ہے:
جسارت سُخن کے لیے موضوع لامحدود ہے
وجہ تخلیق کائنات، جانِ دو جہاں، رونق مکان و لامکاں
پیغمبرِ آخرالزماں حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ
حاضرین صد احترام!
وحشت کا تپتا صحرا تھا، تاریک و مہیب مسکن تھے شعور و خرد کی روشنی ناپید تھی گھٹائے ظلمت زوروں پر تھی، زمین تا اُفق بلکہ اُفق تا اُفق جہالت کے مہیب سائے چھائے تھے۔ کاروان زندگی بے چین تھا اچانک فضائے عرب و عجم میں خاموش آوازوں کی سرسراہٹ فرشِ سماعت پر نغمگی کے تار چھیڑنے لگی۔ تہذیب کے ماتھے پر افشاں کے ذرے چمکنے لگے۔ غازے کی شفق جھلملانے لگی۔ منافقت کی لُٹیا ڈوبنے لگی، تاریکیاں بین کرنے لگیں۔ ابلیس بال نوچنے لگا، شرک کی جڑ کٹنے لگی، بُت مُنھ کے بل گرے۔ نہ لات رہا نہ منات، قیصریت کے قلعے زمین بوس ہوئے۔ آتشکدے بُجھ گئے۔ خسروانہ طُمطراق خاک میں ملنے لگا۔ کجلاہوں کے سر سے تاج اُڑے، شنشہاؤں کے سنگھاسن ڈولنے لگے فرعونی جاہ و جلال کے علمبردار سکتے میں آگئے، خزانے لُٹنے لگے، ایوان اجڑنے لگے۔ کائنات مین روشنی اور نُور کے دھارے رقص کرنے لگے۔
سامعین گرامی!
"واللیل" کی زلفوں والا، "والقمر"" رخساروں والا، طٰہٰ کے لقب والا، "والعصر" کی نگاہوں والا، کالی کملی والا جلوہ افروز ہوگیا۔ سورج جس کی انگشتِ شہادت کا غلام تھا، جس کی قدموں کی چاپ سے احد لرزنے لگتا تھا۔ چاند جس کا کھلونا تھا۔ فلک کے ستارے جسے سلام کرتے تھے جو مکین فرش تھا مگر مہمان عرش تھا۔ جبرائیل جس کے در کا نگہبان، ملائک جس کی گلیوں کے کوزہ گر، موجِ صباء جس کے در کی بھکارن، شفاعت جس کا ہُنر، زم زم جس کے آئین سخاوت کی گواہی موسمِ گُل، جس کی خیرات قبا، غرضیکہ کائنات کی ہر شے ذرہ ذرہ مصروفِ ثناء بقول شاعر
کبھی جو مجھ سے اُلجھتا ہے دوپہر کا عذاب
وہ میرے سر پر کرم اپنا تان دیتا ہے
میرے بِساطِ بشر تجھ پہ کیا نثار کروں
تیری ادا پہ تو جبرائیل بھی جان دیتا ہے
سامعین گرامی!
مالکِ کائنات خالقِ کائنات فرماتے ہیں اے محبوب اگر تو نہ ہوتا تو کچھ بھی نہ ہوتا، یہ تارے، یہ حجر، یہ شجر، یہ ماہ و انجم، یہ شمس و قمر، یہ جمادات، یہ نباتات سب تیرے لیے ہیں!
حاضرینِ محفل!
قادسیہ کے میدانوں کو یاد کریں، بدروحنین کی فتح یاد کریں، روما اور فارس کے محلات کے مناروں کو سرنِگوں دیکھیں۔ آپ کو تاریخ ایک ہی نقطے پر سمٹی نظر آئے گی۔
جنابِ صدر!
معرکہ حنین ہو یا بدر کی فضا، اُحد کا میدان ہو یا عرب کے ریگزار، پلٹتے سورج کا منظر ہو یا طائف کی گلیوں میں ستم زنجیر کرنا، بس ایک ہی بات سمجھ آتی ہے کہ میرے نبی ﷺ وہ نبی تھے جن کی تلاش میں پیر کہن سال نے ہزاروں گردشیں کاٹیں۔ لیلائے شب نے جس کی تمنائے وصال کے لیے اپنی مانگ کے لیے موتی بھر لیے اور روزِ روشن نے جس کے استقبال کے لیے سورج کا سنہری تاج سر پر رکھا!
سامعین گرامی! جناب صدر میں اس طولانی موضوع کو ان اشعار پر ختم کروں گا۔
آپ نے وقت کی رفتار بدل کر رکھ دی
وقت چلتا ہے مگر آپ کی رفتار دیکھ کر
زندگی آج بھی پاسکتی ہے معراج مگر
آپ کے حُسنِ عمل، رفعتِ کردار دیکھ کر!
ربیع الاوّل کا پیغام: پرائمری طلبہ کے لیے تقریر پر یہاں کلک کیجیے