مجھے نام نہ آئے رکھنا
پچھلے کالم میں ایک خاتون نے ’باپ‘ پر اعتراض کیا تھا۔ ’باپ تک پہنچنا‘ اردو کا ایک محاورہ ہے۔ یہ محاورہ ایسے موقع پر استعمال کیا جاتا ہے جب تُوتکار ہوجائے اور کوئی ایک فریق یا دونوں ایک دوسرے کے باپ کو بھی اپنی تُھکّا فضیحتی میں گھسیٹ لائیں اور اُس کا ’گھسیٹا خان حلیم‘ بنائیں۔
پچھلا کالم شائع ہوا تو ایک باپ کو طیش آگیا۔ مُریدکے (پنجاب) سے جناب محمد تسلیم الحسن نے کالم پڑھ کر اعتراض کیا:
’’نوزائیدہ بچیوں کے نام اُمِ کلثوم اور اُم حبیبہ وغیرہ رکھ دیے جاتے ہیں۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ نوزائیدہ بچی کلثوم یا حبیبہ کی ماں کیسے ہوسکتی ہے؟ یہاں اُم کا کیا معنی لیا جائے گا؟‘‘
سب سے پہلے تو یہ عرض ہے عزیز من! کہ: ’مرے وطن کی ’’لیاقت‘‘ کا حال مت پوچھو‘۔ یہاں ناموں میں بڑا گھپلا ہے۔ اس موضوع پر الگ سے کالم لکھنا پڑے گا۔ اِس دیس میں لڑکیوں کے نام کلثوم اور اَیمن رکھے جاتے ہیں، جب کہ لڑکوں کے راحت و ثروت۔ راحت اور ثروت تو عربی ہی میں نہیں، اردو میں بھی مؤنث ہیں۔ مگر بعض لوگوں کو قافیہ پیمائی کی دُھن ہوتی ہے۔ اولادیں آپس میں ملیں یا نہ ملیں اُن کے ناموں کے قافیے ضرور ملنے چاہئیں۔
’ اللثم‘ عربی زبان میں ناک کے اردگرد کے علاقوں کو کہتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ہر شخص کی ناک کے دونوں طرف رُخسار ہی ہوتے ہیں۔ سو، بھرے بھرے رخساروں والے شخص کو ’کلثوم‘ کہا جاتا ہے۔ یہ مردانہ نام ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم مکہ سے ہجرت فرماتے ہوئے قباتک پہنچے تو وہاں جن صحابی کے مکان پرقیام فرمایا اُن کا نام کلثومؓ بن ہدم تھا۔ مسجد قبا بھی ان ہی کی زمین پر تعمیر ہوئی۔ ہمارے ہاں غلط فہمی صاحبزادیِ رسولؐ کی کنیت اُمِّ کلثومؓ کی اصل سے ناواقفیت کے سبب ہوئی۔ خواتین کی کنیت دیکھتے وقت لوگ بھول جاتے ہیں کہ خواتین صرف خواتین ہی کی نہیں، مردوں کی بھی مائیں ہوسکتی ہیں۔
اسی طرح اَیمن کا مطلب ہے دائیں جانب والا، برکت والا، اچھے بخت والا، اچھے نصیب والا۔ یہ بھی مردوں کا نام ہے۔ حضرت آمنہ کی ایک کنیز اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی آیا تھیں جن کا نام برکہ اور کُنیت اُمِ اَیمن تھی۔برکہ کے فرزندِ اوّل کا نام اَیمن تھا۔ حضرت آمنہ کی وفات کے بعد سے حضورؐ کی شادی ہوجانے تک، اُم اَیمن ہی آپؐ کی خدمت کرتی رہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم اُن کو’’ـ اُمّی بعد اُمّی‘‘ کہہ کر پکارا کرتے تھے، یعنی میری ماں کے بعد والی میری ماں۔ اُم اَیمن کے صاحب زادے حضرت اَیمنؓ صحابی رسولؐ ہوئے۔ مگر ہمارے ہاں کنیت ہٹاکر لوگوں نے لڑکیوں کا نام اَیمن ہی رکھنا شروع کردیا۔ حالاں کہ اَیمن اسمِ مذکر ہے اور اس کا مؤنث یمنیٰ ہے۔ مکہ کے بابرکت علاقے کو ’وادیِ اَیمن‘ کہا جاتا ہے۔ اقبالؔ کو مسجد قرطبہ کے در و بام پراسی وادی کا نور دکھائی دیا تھا:
تیرے در و بام پر وادیِ اَیمن کا نور
تیرا مِنارِ بلند جلوہ گہِ جبرئیل
اُم صرف ماں کو نہیں کہتے، کسی چیز کی اصل کو بھی اُم کہا جاتا ہے۔ مثلاً ’قبض‘ کو’اُم الامراض‘ کہتے ہیں اور شراب کو ’اُم الخبائث‘۔ شراب کے نشے میں دُھت شخص باقی تمام خباثتوں میں بآسانی مبتلا ہوسکتا ہے۔ ’اُم الصبیان‘ مرگی جیسی ایک بیماری ہے جو صرف بچوں کو لاحق ہوتی ہے۔ بچے کو عربی میں ’صبی‘ بھی کہتے ہیں۔ صبی کی جمع صبیان ہے۔ یہ بیماری (اُم الصبیان) صرف بچوں کو تاکتی ہے، گویا بچوں کی ماں بن بیٹھتی ہے۔ پرچم یا جھنڈے کو ’اُمِّ حرب‘ کہا جاتا تھا، کیوں پرانے زمانے میں کسی کا پرچم گر جاتا، یا گرا دیا جاتا تو اسے بھی شکست ہی سمجھا جاتا تھا۔ لڑائی ختم ہوجاتی۔ اُمِّ حرب ہی ماری گئی تو پھر کاہے کی حرب؟ اپنا جھنڈا اونچا رکھنے ہی کے لیے تو لڑ رہے تھے۔
مکۃ المکرمہ کو ’اُم القُریٰ‘ (شہروں کی ماں) کہا جاتا ہے۔ ’اُم الکتاب‘ لوحِ محفوظ کوکہتے ہیں جہاں قرآنِ مجید محفوظ ہے اور جہاں سے تھوڑا تھوڑا کرکے نازل کیا گیا۔ سورۃ الفاتحہ کو بھی ’اُم الکتاب‘ کہتے ہیں کہ پورا قرآنِ مجید’اِھدنا الصّراط المستقیم‘ کی دُعا کا جواب ہے۔
اگر کسی شخص نے کسی استاد سے کوئی سبق نہ پڑھا ہو، جیسا ماں کے پیٹ سے نکلا تھا ویسا ہی رہا ہو، تو ایسے شخص کو اُمی کہتے ہیں۔ مراد بے پڑھا شخص۔ جس قوم میں کوئی نبی نہ آیا ہو اُس قوم کو بھی اُمی کہا گیا۔سیدنا اسمٰعیل علیہ السلام کی تعلیمات بھلا دینے کے بعد سے، جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کی بعثت نہیں ہوگئی، اُن کی قوم بھی اُمّی ہی رہی۔ درمیانی عرصے میں اُن کے درمیان کوئی نبی نہیں اُترا۔
کنیت کے طور پر’اُم‘ کے استعمال کی بھی دو صورتیں ہیں۔ ایک نسبی کُنیت اور ایک وصفی کنیت۔ نسبی کنیت کی بہت سی مثالیں ہمیں تاریخ سے مل جاتی ہیں۔ جیسے اُم حبیبہؓ، ام سلمہؓ، اُم ورقہؓ، اُم عمارہؓ، ام کلثومؓ اور اُم ایمن وغیرہ۔ وصفی کنیت کی بھی کئی مثالیں ہیں۔ مثلاً اُم المومنین حضرت زینبؓ بنتِ خزیمہ صدقہ خیرات بہت کرتی تھیں۔ اپنے در سے کسی مسکین کو خالی ہاتھ نہ جانے دیتیں۔ اس رحم دلانہ صفت کی وجہ سے آپؓ کی کنیت ’اُم المساکین‘ پڑ گئی۔ ’اُم المومنین‘ بھی ایک توصیفی کنیت ہے جو صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کی ازواجِ مطہرات کے لیے مخصوص ہے۔ جس عورت کے صرف بیٹے ہی بیٹے ہوتے ہوں، اِس وصف کی وجہ سے اُسے اُم البَنِین (بیٹوں کی ماں) کہا جاتا ہے۔
اب رہا یہ سوال کہ کسی نوزائیدہ بچی کا نام اُم حبیبہ یا اُم کلثوم کیسے ہوسکتا ہے؟ تو پہلی بات یہ کہ مسلمان یہ نام کنیت کے طور پر نہیں رکھتے۔ برکت کے حصول کے لیے ازواجِ مطہراتؓ اور صحابیاتؓ کے ناموں پر اپنی بچیوں کے نام رکھتے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ ایسا ہی اعتراض بچوں کے ناموں پر بھی کیا جا سکتا ہے۔ آخر بچوں کے نام بھی تو صحابہؓ کے نام پر ابوذر اور ابودُجانہ وغیرہ رکھے جاتے ہیں۔
عربی میں تو جانوروں کی بھی کنیت ہوتی ہے۔ مثلاً ’اُم مازن‘ چیونٹی کو کہتے ہیں۔ ’اُم تولب‘ گدھی کو کہتے ہیں، اور ’اُم ہُبَیرہ‘ مینڈکی کو۔(’تولب‘ گدھے کے بچے کو، ’مازن‘ چیونٹی کے انڈے کو، اور’ ہبیرہ‘ چھوٹے مینڈک کوکہا جاتا ہے)۔ مزید جانوروں کی کنیت اس ڈر سے نہیں لکھتے کہ کہیں ہمارے ملک کے نُدرت پسند نئے نئے والدین کالم پڑھ کر اس فہرست میں سے اپنی نوزائیدہ بچیوں کے لیے نام نہ منتخب کرنا شروع کردیں کہ عربی نام ہے، اچھا ہی ہوگا۔ صاحبو! نام رکھنا بھی ایک ہنر ہے۔ انورؔمسعود کہتے ہیں:
کوئی تخلیق بھی تکمیل نہ پائے میری
نظم لکھ لوں تو مجھے نام نہ آئے رکھنا
نام رکھنے کی ایک دلچسپ مثال یاد آگئی۔ ہم اپنے نئے محلّے میں منتقل ہوئے تو بہت سے اہلِ محلہ ہمیں مبارک باد دینے آئے۔ ایک صاحب کے ساتھ اُن کی ننھی منی پیاری سی بچی بھی آئی۔ بچی کے سر پر ہاتھ پھیرا اور اُس کے والد سے پوچھا: ’’کیا نام ہے اس کا؟‘‘
والد محترم نے بتایا:’’ذالِکَ‘‘ (تلفظ: ذالِکَہ)
نام سنتے ہی چونک پڑے اور ہماری ’غلطی ہائے مضامین‘ والی رگ پھڑک اُٹھی۔ حیرت سے پوچھا: ’’بھلا یہ کیا نام ہوا؟‘‘
فرمایا: ’’قرآنی نام ہے!‘‘
پھر حوالہ دینے کو موصوف نے ہمارے جہل پر مُسکراتے ہوئے سورۃ البقرہ کی دوسری آیت کی تلاوت بھی فرمادی۔ ہم نے عرض کیا:
’’ذالِکَ تو اِسمِ اِشارہ بعید، مذکر ہے۔ اگر اِسمِ اشارہ بعید ہی پر نام رکھنا تھا تو بچی کا نام ’تِلکَ‘ رکھ لیتے۔ کم از کم مؤنث تو ہوتا‘‘۔