برطانوی کرکٹ بحران کا شکار
انگلستان کی ٹیم آج مڈل آرڈر کے مسائل میں گھری ہوئی ہے۔ جو روٹ کے علاوہ کوئی کھلاڑی ذمہ داری سے رنز کرنے پر آمادہ نہیں۔ البتہ ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا۔ کوئی وقت تھا کہ انگلستان کے پاس بڑے قابلِ اعتماد بلے باز تھے۔ گراہم گوچ، ناصرحسین،مائیک ایتھرٹن اور مارکس ٹریسکوتھک کا ذکر کیا کرنا، ابھی چند برس قبل تک جوناتھن ٹروٹ ہی قابو نہیں آتا تھا۔
بارہ برس قبل آج ہی کے دن ٹروٹ نے اپنے ٹیسٹ کیریئر کا آغاز کیا ، اورکیا ہی عمدہ آغاز کیا۔ اوول کے میدان پر ایک شاندار سنچری اسکور کی۔ عمدہ بات یہ رہی کہ اس سنچری کی بدولت انگلینڈ نے ایشز سیریز اپنے نام کی۔ اس کے بعد ٹروٹ انگلینڈ ٹیم کا مستقل رکن بن گیا اور اس نے ٹیسٹ اور ون ڈے، دونوں فارمیٹس میں انگلستان کے لیے بہت رنز کیے۔ وہ ایک قابلِ بھروسہ قابلِ اعتماد بلے باز تھا، جس کی تکنیک عمدہ، سٹروک پلے سٹائلش اور وکٹ پر وقت گزارنے کا ٹیمپرامنٹ کمال تھا۔ وقت پڑنے پر سبک رفتاری سے رنز بھی بناتا تھا۔ یوں لگتا تھا کہ جیسے ایک مکمل بلے باز ہے۔
تاہم جس قدر شان دار اس بھائی کا آغاز تھا، اس سے زیادہ مایوس کن اس کی کرکٹ کے میدانوں سے رخصتی ہوئی۔ مارکس ٹریسکوتھک کے بعد جوناتھن ٹروٹ بھی نفسیاتی مسائل کا شکار ہوا اور کرکٹ سے الگ ہوا اور یہ علیحدگی دائمی ثابت ہوئی۔ ٹریسکوتھک اور ٹروٹ تو واپس نہ آ سکے، دعا ہے کہ بین ا سٹوکس کا انجام ایسا نہ ہو۔ ان جیسے کھلاڑیوں سے ہی تو میدانوں پر رونق کا سماں ہوتا ہے۔