سلام ٹیچرڈے: سلام اے استاد محترم (طلبہ کے لیے تقریر)
آؤ پھر ریت پہ بکھرے ہوئے ہیرے چُن لیں
پھر یہ صحرا کی سخاوت بھی رہے یا نہ رہے
آؤ کچھ دیر جراحت پہ چھڑک لیں شبنم
کیا خبر پھر یہ روایت بھی رہے یا نہ رہے !
جنابِ صدر محفل، معزز اساتذہ کرام اور دیگر حاضرین محفل!
السلام علیکم !
آج کی اس پُروقار ، محفل تفسیرِ سخن میں میرا موضوع سخن ہے
"سلام ٹیچر"
جنابِ صدر! کہتے ہیں کہ آدمی بننا تو بہت آسان ہے مگر انسان بننا بہت ہی دُشوار ہے، بہت کھٹن ہے۔ بقول شاعر
مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
اور جب آدمی انسانیت کے جامے میں آجاتا ہے تو پھر مسجودِ ملائکہ ہوجاتا ہے۔ جیسا کہ شاعر نے کہا ہے کہ
تر دامنی پہ شیخ ہماری نہ جائیو
دامن نچور دیں تو فرشتے وضو کریں
سامعین محترم، حاضرین محتشم!
ٹیچر کیا ہے؟ ذرا تاریخ کے اوراق پلٹیے۔۔۔علامہ اقبال انگریزوں سے کہہ رہے ہیں کہ میں اپنے استاد کی زندہ تصنیف ہوں۔ سکندر اعظم یونانی فخر سے کہتا ہے کہ میرے والدین عرش سے فرش پہ لائے مگر میرے اساتذہ مجھے فرش سے عرش پر لے گئے۔ ٹیچر وہ ہستی ہے کہ ہارون الرشید کے بیٹے جس کی جوتیاں سیدھا کرنے پر فخر کرتے تھے۔ ٹیچر وہ ہستی ہے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جس نے مجھے ایک حرف سکھا دیا، میرا آقا بن گیا! اور ہمارے پیارے نبی ﷺ بڑے فخر سے فرماتے تھے کہ مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے۔ ٹیچر بادشاہ نہیں بلکہ بادشاہ گر ہے۔ وہ ہستی جس کے لہجے میں مٹھاس ، نگاہوں میں شفقت اور رویے میں تحمل ہوتا ہے، ٹیچر کہلاتی ہے اور وہ ہستی جو قوموں کے سورج ضوفشاں کرتی ہے، ٹیچر کہلاتی ہے۔ ٹیچر ہی ہے جو ہاتھ میں جگنو تھامے شمس و قمر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پکار اٹھتا ہے۔
یہ ماہ تاباں سے جاکے کہہ دو کہ اپنی کِرنوں کو گِن کے رکھے
میں اپنے صحرا کے ذرے ذرے کو خود چمکنا سکھا رہا ہوں
ٹیچر وہ ہستی ہے جو نخل نوزائیدہ کو تناور درخت کے قالب میں ڈھالتی ہے۔ ٹیچر وہ ہستی ہے جو مشت خاک کو انسان بنادیتی ہے جو گمان کو یقین میں ڈھالتی ہے وہ ہستی جو کسک کو لوح تعبیر پر ابھارتی ہے جو پتھروں سے ہیرے تراشتی ہے جو چشمِ بصارت کو نگاہِ بصیرت عطا کرتی ہے جو اسماعیل کو آدابِ فرزندی سکھاتی ہے۔ وہ ہستی جو بجھتے دیو کی لَو سنوارتی ہے۔ وہ ہستی جو ذہن کے کورے قرطاس پر حرف شناسائی ابھارتی ہے وہ ہستی جو فکر ونظر کے اندھیرے اُجالتی ہے اور سوچ کی شبوں میں سورج نکالتی ہے۔ اس ہستی کا نام "ٹیچر" ہے۔
سامعین گرامی!
ٹیچر چلچلاتی دھوپ میں سایہ دار شجر ہے، ٹیچر تپتے صحرا میں نخلستان ، ٹیچر صحراؤں ، میدانوں، پہاڑوں، ندی نالوں اور سمندروں پر یکساں برسنے والا بادل، ٹیچر اماؤس کی تیرگی میں راہ کا چراغ، ٹیچر یاس میں آس، پُرپیچ راستوں میں خضرِ راہ، تخریب میں تعمیر، ٹیچر بیگانگی میں اپنائیگی، بے رُخی میں توجہگی، بدتری میں بہتری، بے زری میں تونگری، ٹیچر رسمِ پیغمبری،نعرہ قلندری، آسرائے شکستگی، آبروئے رہبری، حوصلہ بے گھری، جراتِ لشکری، غرضیکہ ٹیچر ہمراہ ہے ہر گھڑی!
سامعین گرامی!
ہر طرف اندھیرا ہے، افراتفری ہے، انتشار ہے، راہ پُرخار ہے، سفر دُشوار ہے
سرِ مقتل ہمیں نغمات کی تعلیم دیتے ہیں
یہاں اہلِ نظر ظلمات کی تعلیم دیتے ہیں
یہاں کچھ لوگ ایسے ہیں زرتابی قباؤں میں
سحر کا نام کر رات کی تعلیم دیتے ہیں
ایسے عالَم میں ، ایسے اندھیروں میں ، اماؤس کی ان راتوں میں اس گھنی تیرگی میں، وہ ہستی جو غارِ حرا کے پیام ِ اقراء کی امین ہے قابل احترام ہے، اسی لیے انسانیت پر لازم ہے کہ پلکوں کو احترام سے جھکا کر عقیدت بھرے میں کہ دے۔۔۔
سلام ٹیچر
تاکہ قرضِ سُخن ادا ہوسکے۔