ٹرانس جینڈر اشخاص(حقوق کا تحفظ) قانون 2018، مسئلہ کیا ہے؟(پہلی قسط)
کیا واقعی یہ(ٹرانس جینڈر اشخاص کے حقوق کا) قانون اسلامی احکام سے متصادم ہے؟ کیا واقعی اس قانون سے ہمارے خاندانی نظام کی بنیادیں اکھاڑی جارہی ہیں؟ کیا واقعی اس قانون کے ذریعے بے حیائی کےلیے راستے کھولے گئے ہیں؟
یہ اور اس طرح کے کئی سوالات لوگ پوچھ رہے ہیں۔ اس لیے چند گزارشات پیش کی جارہی ہیں۔
(اس سلسلے کو دو حصوں میں بیان کیا جائے گا۔ اس تحریر ڈاکٹر محمد مشتاق نے لکھی ہے۔ آپ ماہرِ قانون اور بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد میں شعبہ قانون کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں)
(اس مسئلے کا صحیح فہم و ادراک حاصل کرنے کے لیے ان دو اصولی نکات کو جاننا ازحد ضروری ہے۔ ٹرانس جینڈر قانون کا جائزہ لینے سے پہلے ان کا بیان کیا جانا اہم ہے۔ مدیر الف یار)
اس مسئلے کو سمجھنے کے لیے سب سے پہلے دو اصولی نکات:
دو اصولی نکات : قانونی نکات سمجھنے کے لیے
پہلا اصولی نکتہ
کیا آئینِ پاکستان سے اسلامی شقوں کو خارج کرنا ممکن ہے؟
پہلی اصولی بات یہ ہے کہ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے (آئین کی دفعہ 1)؛ اس کا ریاستی مذہب اسلام ہے (آئین کی دفعہ 2)؛ یہاں حاکمیت اعلی اللہ تعالیٰ کی ہے اور پارلیمان سمیت تمام ریاستی و حکومتی اداروں کے پاس اختیارات کی حیثت مقدس امانت کی ہے جسے وہ اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدود کے اندر رہ کر استعمال کرنے کے پابند ہیں (آئین کی دفعہ 2 اے)؛ یہاں لوگوں کو آزادی اور دیگر حقوق میسر ہوں گے، لیکن "جیسا کہ اسلام نے دیے ہیں" (آئین کی دفعہ 2 اے)؛ یہاں کوئی قانون اسلامی احکام سے متصادم نہیں بنایا جاسکتا اور جتنے رائج الوقت قوانین ہیں، ان کو اسلامی احکام سے ہم آہنگ کرنا لازم ہے (آئین کی دفعہ 227)؛ یہاں قوانین میں اصلاحات کےلیے جو لا اینڈ جسٹس کمیشن بنایا گیا ہے، اس پر بھی لازم ہے کہ نئی قانون سازی کےلیے تجاویز دیتے ہوئے سماجی انصاف کے متعلق اسلامی اصولوں کی پابندی کرے (لا اینڈ جسٹس کمیشن کا قانون، دفعہ 6 (1))؛ اور یہاں عدالتوں پر لازم ہے کہ کسی بھی قانون کی تعبیر و تشریح کرتے ہوئے، یعنی اس کا مفہوم متعین کرتے ہوئے، یہ یقینی بنائیں کہ قانون کا مفہوم اسلامی احکام سے متصادم نہ ہو (قانونِ نفاذِ شریعت، 1991، دفعہ 4)۔
اس لیے یہ کہنا کہ کسی قانون کے متعلق یہ بحث اٹھانا کہ یہ اسلامی احکام سے متصادم ہے یا نہیں، "کٹھ ملاؤں" کا کام ہے، نری جہالت ہے۔۔۔۔ خواہ ایسی بات کہنے جاہلوں نے دنیا کی اچھی یونیورسٹیوں سے بڑی بڑی ڈگریاں لی ہوں۔ جب تک اس ملک کے آئین اور قانون کی اسلامی شناخت ختم نہیں کردی جاتی، اس سوال سے جان نہیں چھڑائی جاسکتی۔ واضح رہے کہ سپریم کورٹ کئی فیصلوں میں قرار دے چکی ہے کہ آئین کی اسلامی حیثیت کو ختم کرنے کےلیے صرف چند دفعات میں ترمیم کافی نہیں ہے بلکہ اس کےلیے نیا آئین بنانا ہوگا اور نیا آئین باننے کےلیے موجودہ پارلیمان کے پاس اختیار نہیں ہے، بلکہ نئی آئین سازی کےلیے عوام سے باقاعدہ اختیار لے کر آنا پڑے گا۔ (مثال کے طور پر دیکھیے، الجہاد ٹرسٹ کیس 1996اور فوجی عدالتوں کے متعلق کیس 2015۔) یہ بھی دیکھ لیجیے کہ جنرل مشرف کی روشن خیال اعتدال پسندی کے دور میں کی جانے والی 17 ویں ترمیم کے ذریعے آئین میں بہت ساری ترامیم کی گئیں لیکن اسلامی دفعات کو ہاتھ نہیں لگایا جاسکا۔ اسی طرح جب 18ویں ترمیم کے موقع پر پورے آئین پر نظرِ ثانی کرکے اس کی "اوور ہالنگ" کی کوشش کی گئی، اس وقت بھی کسی کو اسلامی دفعات کو چھیڑنے کی جرات نہیں ہوسکی۔ اس لیے مٹھی بھر سیکولر عناصر اور اقوامِ متحدہ اور دیگر اداروں و اقوام سے فنڈز لینے والی این جی اوز کو یہ بات گرہ سے، یا پلو سے، باندھ لینی چاہیے کہ انھیں اس ملک میں رہنا اور یہاں کام کرنا ہے، تو اسلامی اصولوں کے ساتھ ، اور ان کے سائے میں، رہنا سیکھ لیں، خواہ آپ کو اچھا لگے یا برا۔
دوسرا اصولی نکتہ: قانون کی اسلامی حیثیت کو جانچنے کا اختیار کس کو ہے؟
دوسری اصولی بات یہ ہے کہ کسی قانون کے اسلامی احکام سے متصادم ہونے یا نہ ہونے کے مسئلے پر لوگوں کی آرا مختلف ہوسکتی ہیں لیکن ریاستی سطح پر ہم نے اس مقصد کےلیے دو ادارے بنائے ہیں: ایک اسلامی نظریاتی کونسل اور ایک وفاقی شرعی عدالت۔ کونسل قانون سازی کے مرحلے پر، قانون بننے سے قبل بھی، اپنی راے دے سکتی ہے، جبکہ شرعی عدالت کا کام قانون بن چکنے کے بعد شروع ہوتا ہے۔ گویا قانون بننے کے مرحلے میں اگر یہ سوال اٹھے کہ اس قانون کی کوئی شق اسلامی احکام سے متصادم ہے یا نہیں، تو کونسل اس سوال کا جواب دینے کےلیے موجود ہوتی ہے، جبکہ قانون بن چکنے کے بعد اس کے خلافِ اسلام ہونے یا نہ ہونے پر فیصلہ دینے کےلیے شرعی عدالت کے پاس اختیار ہے۔کونسل اس سوال کے جواب میں جب اپنی راے دیتی ہے، تو اس کی حیثیت تجویز اور سفارش کی ہوتی ہے، جبکہ شرعی عدالت کے فیصلے کو الزامی (binding) حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ کونسل کی سفارش پر غور کرنا پارلیمان پر لازم ہے، خواہ غور کے بعد وہ اسے قبول کرے یا نہ کرے، لیکن شرعی عدالت نے اگر قانون کو یا اس کی کسی شق کو اسلامی احکام سے متصادم قرار دیا تو اسے ماننا پارلیمان پر بھی اور سپریم کورٹ سمیت تمام عدالتوں پر ماننا لازم ہوجاتا ہے، الا یہ کہ سپریم کورٹ کی شریعت اپیلیٹ بنچ اس فیصلے کوتبدیل کردے۔
اب مسئلہ یہ ہے کہ کونسل کی سفارشات ماننا لازم نہ سہی، ان پر غور تو لازم ہے، لیکن اس کے باوجود اس موضوع پر کونسل کی سفارشات کو پارلیمان نے سرے سے درخورِ اعتنا سمجھا ہی نہیں۔ سینیٹ کی سٹینڈنگ کمیٹی نے جس طرح کونسل کی سفارشات کے ساتھ کھیل کھیلا، وہ ایک الگ داستان ہے۔ باقی رہی بات شرعی عدالت کی، تو وہاں اس قانون کے خلاف درخواست زیرِ التوا ہے اور پتہ نہیں کب تک زیرِ التوا رہے گی۔ پھر جب شرعی عدالت فیصلہ دے بھی دے، تو اس کے بعد اپیل کا مرحلہ آئے گا اور اپیل کا فیصلہ ہونے تک شرعی عدالت کا فیصلہ معطل رہے گا۔ اس لیے جب سینیٹ کی سٹینڈنگ کمیٹی براے حقوق انسانی نے اپنی آخری میٹنگ میں سینیٹر مشتاق احمد خان کو یہ مشورہ دیا کہ اگر وہ اسے اسلامی احکام سے متصادم سمجھتے ہیں، تو اس کے خلاف شرعی عدالت میں جائیں، تو انھوں نے کہا کہ وہاں تو تیس سال لگ جائیں گے، اور اگر آپ تیس سال تک اس قانون کو منجمد کرسکتے ہیں، تو پھر میں پارلیمان میں ترمیمی بل پیش کرنے کے بجاے شرعی عدالت کے فیصلے کا انتظار کرلوں گا! اس پر ظاہر ہے کہ انھیں ہاتھ کھڑے کرنے پڑے کیونکہ وہ کبھی اس قانون کو معطل کرنا پسند نہیں کریں گے۔
واضح رہے کہ اس قانون کے وضع کیے جانے سے قبل اسلامی نظریاتی کونسل نے اس کے مسودے کا تفصیلی جائزہ لے کر صریح الفاظ میں اسے اسلامی احکام سے متصادم قرار دیا تھا۔ کونسل کی بات تو آپ نے مانی نہیں۔ شرعی عدالت میں جانے کا کہہ رہے ہیں اور وہاں اس کا فیصلہ ہونے میں کئی عشرے لگ جائیں گے۔ تو پارلیمان میں ہی کیوں نہ ترمیمی بل پیش کیا جائے تاکہ جہاں سے غلطی کا آغاز ہوا ہے، وہیں سے اس کی اصلاح کی جائے؟
اگر کسی قانون کے خلاف عدالت میں درخواست دائر ہو تو کیا پارلیمان اس بل یا قانون میں ترمیم کا حق نہیں رکھتی ہے؟
اس قانون کے محافظین نے ایک بہانہ یہ بھی پیش کیا کہ چونکہ اس قانون کے خلاف درخواست شرعی عدالت میں دائر کی جاچکی ہے، اس لیے یہ معاملہ اب "subjudice" ہے، یعنی عدالت کے سامنے زیرِ غور ہے، اور اس لیے اس کو کسی اور فورم پر اٹھایا نہیں جاسکتا۔ یہ نہ صرف یہ کہ ایک لولا لنگڑا عذر ہے بلکہ گمراہ کن بات بھی ہے۔ کوئی ایسا قانون یا اصول نہیں ہے جو پارلیمان کو اس قانون میں ترمیم سے روک سکے۔ بھئی، شرعی عدالت میں درخواست گزار نے یہی اعتراض کیا ہے نا کہ یہ قانون اسلامی احکام سے متصادم ہے۔ تو اگر پارلیمان ہی اس اعتراض پر بحث کرنے کے بعد مناسب اور ضروری سمجھے تو قانون میں ترمیم کرلے، تو اس پر کسی کو کیا اعتراض ہوسکتا ہے؟ پھر تو درخواست گزار کا اعتراض ہی ختم ہوجائے گا اور عدالت میں دائر کیا گیا مقدمہ خارج کردیا جائے گا۔
اس کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ توہینِ رسالت کے قانون ہی کی مثال لے لیجیے۔
سپریم کورٹ کے سینیئر وکیل اسماعیل قریشی نے جنرل محمد ضیاء الحق کو فریق بنا کر وفاقی شرعی عدالت میں درخواست دائر کی کہ جنرل صاحب نے اپنے صدارتی احکام کے ذریعے مجموعۂ تعزیراتِ پاکستان میں توہینِ صحابہ، توہینِ امہات المؤمنین اور توہینِ اہل بیت پر سزائیں مقرر کی ہیں لیکن توہینِ رسالت پر سزا نہیں ہے۔ اس مقدمے کا عنوان ہے اسماعیل قریشی بنام جنرل محمد ضیاء الحق۔ شرعی عدالت نے اس درخواست کی سماعت کی اور فیصلہ محفوظ کرلیا لیکن یہ فیصلہ سنانے کی نوبت کبھی نہیں آئی کیونکہ اس دوران میں پارلیمان نے مجموعۂ تعزیراتِ پاکستان میں دفعہ 295-سی کا اضافہ کرکے توہینِ رسالت پر موت یا عمر قید مع جرمانے کی سزائیں مقرر کردیں۔اس لیے یہ کوئی عذر نہیں ہے کہ چونکہ اس قانون کے خلاف درخواست عدالت میں زیرِ غور ہے، تو پارلیمان اس قانون میں ترمیم کےلیے بل پر غور نہ کرے۔
ٹرانس جینڈر قانون کے متن کا جائزہ
قانون میں کیا لکھا ہوا ہے۔۔۔؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان دو اصولی نکات کے بعد اب اس قانون کے متن کا جائزہ لیتے ہیں۔
اس قانون کی دفعہ 2 تعریفات پر مشتمل ہے جہاں اس قانون میں استعمال کیے گئے الفاظ و تراکیب کی تعریفات پیش کی گئی ہیں۔
دفعہ 2، ذیلی دفعہ 1،شق ای میں "اظہارِ صنف" کی تعریف یہ پیش کی گئی ہے:
اظہارِ صنف
"اظہارِ صنف سے مراد کسی شخص کا اپنی صنفی شناخت کا پیش کرنا ہے اور جو دوسرے محسوس کریں۔"
پھر دفعہ 2، ذیلی دفعہ 1، شق ایف میں "صنفی شناخت" کی تعریف یوں دی گئی ہے:
صنفی شناخت
"صنفی شناخت سے مراد ہے کسی شخص کا اپنے بارے میں سب سے اندرونی اور انفرادی احساس کہ وہ مرد ہے، عورت ہے، دونوں کا مجموعہ ہے، یا دونوں نہیں، جو اس جنس کے ساتھ ہم اہنگ ہو یا نہ ہو جو پیدائش کے وقت اسے دی گئی۔"
خوب اچھی طرح نوٹ کرلیں کہ یہاں "جنس" (sex) اور "صنف" (gender)میں فرق کیا گیا ہے اور اہمیت صنف کو دی گئی ہے اور صنف کا فیصلہ کسی شخص کے "سب سے اندرونی اور انفرادی احساس" (innermost and individual sense) پر مبنی قرار دیا گیا ہے۔ ان تعریفات کی زد اصل میں کہاں پڑتی ہے، اس کا اندازہ لگانے کےلیے دیکھیے "ماوراے صنف شخص" یعنی ٹرانس جینڈر پرسن کی تعریف جو دفعہ 2، ذیلی دفعہ 1، شق این میں دی گئی ہے۔
خُسرا ، خواجہ سرا اور ماورائے صنف (ٹرانس جینڈر) میں کیا فرق ہے؟
خُسرا (انٹر سیکس)
ماوراے صنف شخص کی تعریف میں تین قسمیں ذکر کی گئی ہیں:
ایک خسرا، جسے intersex کہا گیا ہے، اور اس کی توضیح یوں کی گئی ہے کہ یہ وہ شخص ہے جس میں مرد اور عورت دونوں کی جنسی علامات پائی جائیں، یا جس کی جنس کے متعلق ابہامات پائے جائیں؛
خواجہ سرا (یونَخ)
دوسری، خواجہ سرا (eunuch) جس کی تعریف یہ پیش کی گئی ہے کہ اس شخص کو پیدائش کے وقت مرد کی جنس دی گئی ہوتی ہے لیکن اس کے بعد اس کا جنسی عضو کاٹ لیا گیا ہو یا اسے نامرد بنا دیا گیا ہو؛
ماورائے صنف شخص (ٹرانس جینڈر)
تیسری قسم (اور یہیں سارے فساد کی جڑ پائی جاتی ہے) کو ہی اصل ماوراے صنف قرار دے کر اس کی تعریف یوں پیش کی گئی ہے:
ماوراے صنف مرد، عورت، خواجہ سرا، یا کوئی بھی شخص (جی ہاں، اچھی طرح نوٹ کرلیں، کوئی بھی شخص) جس کی صنفی شناخت یا جس کا اظہارِ صنف (ان دونوں تراکیب کی تعریف اوپر دی گئی ہے، وہ دوبارہ ملاحظہ فرمالیں) ان سماجی اقدار اور ثقافتی توقعات سے مختلف ہو جو اس جنس پر مبنی ہوں جو اسے پیدائش کے وقت دی گئی تھی۔
ماورائے صنف شخص کون ہوتا ہے؟ کیا یہ خُسرا اور خواجہ سرا کی ہی کی قسم ہے یا "کسی بھی شخص" سے مراد کوئی "اور" ہے؟
انٹر سیکس اور یونخ کی طرف تو بعد میں جائیں گے، اور وہ اس قانون کے اصل موضوع ہیں بھی نہیں۔ سرِ دست توجہ کیجیے "ماوراے صنف مرد، عورت، خواجہ سرا، یا کسی بھی شخص" پر اور اس تعریف کو بار بار پڑھیے تاکہ کوئی ابہام باقی نہ رہے۔
سب سے پہلے تو اس تعریف میں "یا کسی بھی شخص" (or any person) کے الفاظ پر غور کریں۔ ان الفاظ سے قبل تین خاص صورتیں ذکر کی گئی ہیں: ماوراے صنف مرد، ماوراے صنف عورت ، خواجہ سرا۔ اب ان تین خاص صورتوں کے بعد بالکل عمومی صورت ذکر کی گئی: یا کوئی بھی شخص۔ اصول فقہ کی اصطلاح استعمال کریں، تو یہ ذکر العام بعد الخاص ہے۔ گویا اصل ہدف اس عموم کا بیان تھا اور پہلے چند خاص صورتیں صرف بطورِ مثال ذکر کی گئی ہیں۔
ماورائے صنف کا کیا مطلب ہے؟
چنانچہ ایک نتیجہ تو اس سے یہ نکلا کہ "ماوراے صنف شخص" کی کیٹگری صرف چند مخصوص افراد کےلیے نہیں ہے، بلکہ یہ "سہولت" اس قانون نے "کسی بھی شخص" کےلیے پیدا کی ہے کہ وہ کسی بھی وقت اپنی صنف (gender) سے ماورا (trans) ہو کر کسی اور صنف میں جاسکتا/سکتی/سکتا-سکتی ہے۔ ٹرانس کا مفہوم سمجھ میں نہ آرہا ہو، تو "ماوراے قوم وجود" (transnational entity) کی ترکیب پر غور کریں جو بعض لوگ مسلمانوں کے تصورِ "امت" کےلیے استعمال کرتے ہیں کیونکہ امت کی شناخت قوم کی شناخت سے ماورا اور بالا ہوتی ہے۔ اسی طرح ٹرانس نیشنل ٹیررزم پر غور کریں جو دہشت گردی کی اس صورت کو کہتے ہیں جو کسی خاص قوم، یعنی ملکی حدود میں مستقل مقید افراد کے مجموعے، تک محدود نہیں رہتی، بلکہ قومی شناخت کو توڑ کر ایک نئی شناخت قائم کرتی ہے۔
یہی کچھ ماوراے صنف شخص کرتا ہے!
الفاظ پر اچھی طرح غور کریں۔
پیدائش کے وقت اسے جو جنس (sex) "دی گئی (معاشرے نے کہا کہ یہ مرد ہے، وہ عورت ہے)، اس جنس کے ساتھ، جو ایک حیاتیاتی (biological) تصور ہے اور جس کا تعلق جسمانی ساخت سے ہے، سماج نے کچھ اقدار باندھی ہوئی ہیں (یہ مردوں کے کام ہیں، وہ عورتوں کے کام ہیں)، اور ثقافت نے اسی بنیاد پر کچھ توقعات قائم کی ہیں (مردانگی دکھاؤ، عورتیں ایسا نہیں کرتیں)، لیکن یہ شخص اس سماجی بندھن و ثقافتی بیڑیوں سے آزاد ہو کر اپنے لیے وہ صنف (gender) چنتا/چنتی/چنتا-چنتی ہے جو اس کے اپنے "سب سے اندرونی سطح اور انفرادی احساس" پر مبنی ہو۔
آسان الفاظ میں کوئی شخص جسمانی طور پر مرد ہے لیکن وہ مردوں وہ کام نہیں کرتا، جو سماجی اقدار کے مطابق مردوں کے کرنے کے ہیں یا جن کی توقع ثقافتی طور پر مردوں سے کی جاتی ہے، تو وہ یہ حق رکھتا ہے کہ وہ اپنی صنف تبدیل کرکے خود کو عورت کہلوائے۔ اسی طرح کوئی عورت بھی اپنا عورت پن ترک کرکے خود کو مرد کہلوا سکتی ہے۔
یہ بھی نوٹ کیجیے کہ بات یہیں تک محدود نہیں ہے کہ کوئی مرد خود کو عورت کہلوائے، یا عورت خود کو مرد کہلوائے، بلکہ اس سے آگے بڑھ کر کوئی مرد خود کو مرد و عورت کا مجموعہ، یا ان دونوں سے الگ نوعیت میں بھی شمار کرسکتا ہے؛ عورت بھی یہی کرسکتی ہے؛ خواجہ سرا بھی یہی کرسکتا ہے؛ اور "کوئی بھی شخص" یہ کرسکتا/کرسکتی/کرسکتا۔کرسکتی ہے۔
مکرر عرض ہے: کوئی بھی شخص!
اس قانون کے بارے میں مزید آئندہ قسط میں ملاحظہ کیجیے
جاری ہے۔۔۔۔۔
اگلی قسط میں ملاحظہ کیجیے کہ ماورائے صنف شخص (ٹرانس جینڈر) کے بنیادی ترین حقوق کیا ہیں۔۔۔اس کے حقِ وراثت کا کیا مسئلہ ہوگا؟ ایسا شخص کن حقوق کا مطالبہ کرے گا؟
ٹرانس جینڈر قانون 2018 ، اصل مسئلہ کیا ہے؟ دوسری قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کیجیے