صبحِ کاذب کا اعتبار نہ کر
استعمار کے خلاف جہاد کا تصور، یوں تو بظاہر بہت جاذب نظر ہے ، مگر سانحہ یہ ہے کہ استعمار کے خلاف اٹھنے والی اکثر تحاریک کی پشتی بان بھی استعمار کی ہی کوئی صورت ہوتی ہے ۔
یہ استعماری قوتیں ، چاہے کسی بھی روپ کو اختیار کِیے ہوئے ہوں ، بھلے آپ ان پسِ پردہ متحرک قوتوں کو اپنی کتنی ہی خیر خواہ اور اصلاح پسند کیوں نہ تصور کریں ، بیشتر ایک استعمار ، کسی دوسرے استعمار کو گھر بھیج کر خود مسندِ اقتدار پر بیٹھنے کے لیے میرے اور آپ کے خون کو استعمال کرتا ہے ۔
طرفہ تماشا یہ ہے کہ ہم بظاہر فتح یاب ، غازی ، شہید یا شہدا کے وارث ہو کر بھی تہی دست رہ جاتے ہیں ۔ اور ان تحاریک میں کچلے جانے والے فرد کو چہار دانگ عالم سے کوئی مددگار نہیں ملتا ، کوئی پُرسانِ حال میسر نہیں آتا ،" پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں" ، کہ استعمار کی سرشت و منشور میں فرد کا تحفظ یا فلاح و بہبود کبھی تھے ہی نہیں۔
لہٰذا یہ بھڑکتے ، شعلہ بنتے جذبات وقتی طور پر مجھے اور آپ کو وارفتہ کریں تو ان پر حقیقت پسندی کی برکھا برسا دینی چاہیے ۔ تغیر اور انقلاب کی چاہ میں دیوانہ ہوئے جاتے ہوں ، اور کوئی گروہ اسی انقلاب کا داعی ہو تو پہلی اس گروہ کی جانچ کیجیے یا گرد بیٹھ جانے دیجیے کہ گرد بیٹھ جائے ، دھند ہٹے تو سب واضح ہو جایا کرتا ہے ، افتخار عارف پکارتے چلے ہیں کہ
کہانی آپ الجھی ہے ، کہ الجھائی گئی ہے
یہ عقدہ تب کُھلے گا ، جب تماشا ختم ہو گا
یہ سب کٹھ پُتلیاں رقصاں رہیں گی رات کی رات
سحر سے پہلے پہلے سب تماشا ختم ہو گا
اگر واقعتاً یہ سب کسی استعمار کا پروردہ ہو تو اپنے خیالات کی آنچ کو شعور کے مورچھل سے سرد کیجیے ، کہ آپ کی مجوزہ و مبیّنہ انقلابی جدوجھد اگر بالفرض کامیاب ہو بھی گئی تو بالواسطہ یا بلا واسطہ، استعمار ہی فتح یاب ٹھہرے گا ۔
اور اگر آپ اپنے بریدہ بازو ، قلم شدہ سر اور اجڑے ہوئے گھر کو لے کر فتح یاب لشکر کے جشن میں شرکت کے خواب دیکھنے والے، جذبات سے سرشار انقلابی مجاہد ہیں ، تو خوش خبری ہے آپ کے لیے ، آپ نے اپنا لہو اور جان و مال استعمار پر نچھاور کر دیا۔یہاں لوگ اور گروہ خواب دکھا کر ایسا لوٹتے ہیں کہ خبر بھی نہ ہو، ہاتھ ملنے کی مہلت بھی نہ ملے۔
آپ سبھی سنیے ،
بھلے میری صدا آپ تک انقلاب سے پہلے پہنچی یا بعد میں
بیشک میری فریاد آپ کے کانوں سے اس حالت میں ٹکرائے ، کہ آپ استعمار کے سپاہی ہیں یا انقلاب کے ،
بہر حال، غور سے سنیے ، بلکہ مت سنیے ، کہ آخر مجھ سے بھی دل فریب ہیں غم روز گار کے ۔
اپنا بیلچہ یا کدال اٹھائیے ، کہ آپ دونوں صورتوں میں استعمار کی مشینری کے ایندھن سے بڑھ کر حیثیت نہیں رکھتے۔