جدید کیمیا گری: کیا لیبارٹری میں سونا بنایا جا سکتا ہے؟
خوش خبری۔۔۔خوش خبری ! اب ہوگا ہر جگہ سونا ہی سونا۔۔۔۔کیا واقعی۔۔۔ لیبارٹری میں سونا بنایا جا سکتا ہے؟ ماضی میں سب سے پہلے کس نے تجربہ گاہ میں سونا(گولڈ) بنایا تھا؟ کیا ایک دھات کو دوسری دھات میں تبدیل کیا جاسکتا ہے؟ کیا سونا مہنگی ترین دھات ہے؟
آگے بڑھنے سے پہلے آپ کو ہزار سال پہلے کی ایک بات بتاتے ہیں۔۔۔۔
قریباََ 1000 عیسوی میں، بغداد کی ایک گلی میں کھدائی ہو رہی تھی کہ وہاں سے ایک کھرل، سونے کا ایک ہاتھ بھر ٹکڑا اور چند دوسری چیزیں برآمد ہوئیں۔ تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ دو سو سال پہلے اپنے وقت کا نامور کیمیا دان جابر بن حیان یہیں رہتا تھا۔ مزید کھدائی پر اس کی پوری لیبارٹری کے علاوہ چند قلمی کتابیں بھی ہاتھ لگیں۔ یہ سب کی سب جابر بن حیان کی لکھی ہوئی تھیں اور ان سب کا موضوع کیمیا تھا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ حاصل ہونے والا وہ سونا، جابر بن حیان نے "کیمیا گری"(الکیمی/ Alchemy) کے ذریعے ہی بنایا تھا۔
کیمیا گری (الکیمی) کی تاریخ
کیمیا گری کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کیمیا کا علم دراصل "سونا بنانے کا علم" ہی تھا اور قدیم وقتوں سے ہی کیمیا دان اس کوشش میں مصروف تھے کہ کسی عام سی دھات یعنی تانبا یا پیتل وغیرہ کو سونے میں تبدیل کیا جائے۔ آپ کو آج بھی اپنے گردو نواح میں ایسے سنیاسی حکیم مل جائیں گے جن کا دعویٰ ہو گا کہ ان کے پاس سونا بنانے کا نسخہ موجود ہے۔کیا کسی سائنسی طریقے سے سونا "تیار" کیا جا سکتا ہے؟
پوری دنیا کی معیشت کا دارومدار سونے پر منحصر ہے اور ہر ملک کے پاس سونے کے وسیع ذخائر کی موجودگی، اس کی معیشت کی مضبوطی کی علامت سمجھی جاتی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آج جب سائنس بہت ترقی کر چکی ہے اور کیمیا (یعنی کیمسٹری) کا علم بہت ترقی کر چکا ہے، سائنس دان ایٹم کی اندرونی ساخت کو مکمل طور پر سمجھ چکے ہیں، مصنوعی طور پر لیبارٹری میں نئے ایٹم بھی تیار کئے جا رہے ہیں، ایٹم کے اندر الیکٹران اور پروٹان کی مقدار میں کمی بیشی کرنا بھی ممکن ہو گیا ہے تو کیا اس سائنسی ترقی کی بدولت لیبارٹری میں سونا تیار کیا جا سکتا ہے؟خوش قسمتی سے اس سوال کا جواب "ہاں" میں ہے۔ سائنسی طور پر سونا بنانا عین ممکن ہے اور لیبارٹری میں اس کا کامیاب مظاہرہ بھی کیا جا چکا ہے۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ اس سونے کی تیاری پر اس قدر زیادہ لاگت آئی ہے کہ اس تجربے کو معاشی لحاظ سے کسی بھی طرح سود مند قرار نہیں دیا جا سکتا۔
سونا بنانے کی سائنسی کوشش
1980ءمیں ایک امریکی سائنسدان گلین سی بورگ نے سیسے کے ہزاروں ایٹموں میں سے پر و ٹا ن اور نیو ٹران نکالنے کے لئے ایک طا قتورسائیکلوٹرون( cyclotron)استعمال کیا تا کہ سیسے (ایٹمی نمبر 82)کو سونے (ایٹمی نمبر79)میں تبدیل کیا جا سکے۔ یہ عمل اتنا مہنگا ثا بت ہوا کہ سونے کا ایک ایٹم بنانے کے لئے جو لا گت آئی وہ کئی اونس سونے کی قیمت کے برا بر تھی۔چلئے ! آپ کو مختصراََ بتاتے ہیں سائنسی طور پر سونا بنانے کا عمل اس قدر مہنگا اور "غیر منافع بخش" کیوں ہے۔
عناصر کی تبدیلی کا قدرتی عمل
ہم جانتے ہیں کہ تمام عناصر بنیادی طور پر ایٹموں پر مشتمل ہوتے ہیں اور تقریباََ تمام ایٹم اپنی اصل حالت میں برقرار رہتے ہیں۔ تاہم ایک ایٹم کی دوسرے ایٹم میں تبدیلی دو طرح سے ممکن ہے۔پہلا طریقہ ہلکے ایٹموں کا بھاری ایٹموں میں تبدیل ہونے کا عمل ہے، جسے سائنسی زبان میں "عمل انضمام" (Fusion) کہا جاتا ہے۔ یہ عمل ہمارے سورج میں کروڑوں سال سے جاری ہے۔ انتہائی شدید درجہ حرارت اور شدید دبائو کے زیر اثر، دو ہلکے ایٹم (ہائیڈروجن )آپس میں مل کر ایک بھاری ایٹم (ہیلیم) میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ اس عمل کے دوران بہت زیادہ توانائی پیدا ہوتی ہے۔ہمارے سورج اور ایسے دیگر ستاروں کی توانائی کا ذریعہ دراصل یہی "عمل انضمام" ہی ہے۔
ایٹموں کی تبدیلی کا دوسرا طریقہ "عمل انشقاق" (Fission) ہے جس میں کسی بھاری ایٹم کو توڑ کر اسے دو ہلکے ایٹموں میں تبدیل کیا جاتا ہے۔ ایٹم بم اسی طریقے کے تحت بنایا جاتا ہے۔ اس عمل کے دوران بھی بہت زیادہ توانائی پیدا ہوتی ہے۔ لیکن اس طریقے میں قباحت یہ ہے کہ یہ طریقہ صرف تابکار ایٹموں (مثلاََ یورینیم، تھوریم وغیرہ )پر کام کرتا ہے۔ یعنی وہ ایٹم جو غیر قیام پذیر ہوتے ہیں اور ان میں سے تابکاری خارج ہوتی رہتی ہے۔ کسی قیام پذیر ایٹم کے مرکزے کو توڑ کو اس میں موجو دپروٹان کی تعداد میں ردو بدل کرنا بہت مشکل اور مہنگا عمل ہے۔
سونے کی کیمیائی ترکیب
سونا ایک کیمیائی عنصر ہے جس کے ہر ایٹم کے نیوکلئس میں 79 پروٹان ہوتے ہیں۔ اصولی طور پر، ہم صرف 79 پروٹان (اور نیوکلئس کو مستحکم بنانے کے لیے اتنے ہی نیوٹران) جمع کر کے سونا تخلیق کر سکتے ہیں۔ دیگر سائنسی طریقوں میں پہلا یہ ہے کہ ہم پارے (مرکری) سے ایک پروٹان نکال سکتے ہیں (جس کے مرکزے میں 80 پروٹان ہوتے ہیں) ۔ یا پھر پلاٹینم میں ایک پروٹان شامل کر سکتے ہیں (جس کے مرکزے میں 78 پروٹان ہوتے ہیں) ۔ یہ دونوں طریقے اصولی طور پر آسان ہیں لیکن عملی طور پر بہت مشکل ہیں۔ کسی نیوکلئس میں پروٹان کو شامل کرنا یا خارج کرنا تقریباََ ناممکن ہے۔ کسی کیمیائی رد عمل کا کوئی سلسلہ کبھی بھی سونا نہیں بنا سکتا۔ کیمیائی رد عمل ایٹم میں الیکٹرانوں کی تعداد اور شکل کو تبدیل کرتے ہیں لیکن ایٹم کے مرکزے کو بغیر کسی تبدیلی کے چھوڑ دیتے ہیں۔ یعنی کیمیائی عمل کے ذریعے ایٹم کے مرکزے میں موجود پروٹان کی تعداد کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ گویا ہم کہہ سکتے ہیں کہ قدیم کیمیا دان کا خواب یعنی صرف کیمیائی عمل سے سونا تخلیق کرنا،تقریباََ ناممکن ہے۔جبکہ اوپر بیان کیا گیا گلین سی بورگ کاوہ طریقہ، جس کے ذریعے سونا بنایا گیا تھا اس لحاظ سے بہت مہنگا ہے کہ ذراتی اسراع گر (پارٹیکل ایکسیسلیریٹر) یا سائیکلوٹرون کی تیاری اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی متقاضی ہوتی ہے۔اس میں کوئی تجربہ سر انجام دینے کے لیے بہت زیادہ توانائی درکار ہوتی ہے۔ یہاں سونا بنانے کا عمل ایسے ہی ہے جیسے آپ کرنسی نوٹ جلا کر ان کی آگ سے روٹی پکائیں۔ چونکہ سیسہ مستحکم ہوتا ہے، اس لیے اسے تین پروٹان چھوڑنے پر مجبور کرنے کے لیے توانائی کی بہت بڑی مقدار درکار ہوتی ہے، اس لیے ایسا کرنے کی لاگت ، سونے کی قیمت سے بہت زیادہ ہو جاتی ہے۔