بارہ (12) ربیع الاول: سیرتِ طیبہ کی روشنی میں موسمیاتی تبدیلی کا مقابلہ کیونکر ممکن ہے ؟
حضور نبی کریم ﷺ رحمتِ دو عالَم ہیں۔۔سارے جہاں کے لیے رحمت،راحت،عنایت اور خیر۔۔۔آپ نے اہل اسلام کو بھی دوسروں کے لیے باعثِ رحمت اور خیر کا علمبردار بننے کی تعلیم دی۔۔۔اس وقت پاکستان سمیت دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلی یا آب و ہوا کی تبدیلی (کلائمیٹ چینج) کے خطرے سے دوچار ہے۔۔۔اگر ہم اس زمین کو زندہ سیارہ برقرار رکھنا چاہتے ہیں تو فطری اصولوں کا پابند بننا ہوگا۔۔۔اسلام نے انسانوں کو باعثِ خیر بننے کا حکم دیا۔۔۔ایک حدیث مبارکہ میں آیا کہ خیر الناس من ینفع الناس یعنی انسانوں میں بہترین شخص وہ ہے جو (دوسرے) انسانوں کے لیے فایدہ مند ہو۔۔۔ 12 بارہ ربیع الاول یعنی ولادتِ رسول ﷺ کے موقع پر اہل اسلام اور عالمی دنیا کو موسمیاتی تبدیلی کے نقصان دہ اثرات سے بچاؤ کے لیے عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ ذیل میں موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے سیرت طیبہ سے چند مفید نکات بیان کیے جارہے ہیں ۔۔۔
موسمیاتی تبدیلی کا حل سیرت طیبہ کی روشنی میں
موسمیاتی تبدیلی کرہ ارض کو تباہ کر رہی ہے، پوری دنیا میں پودوں، جنگلی حیات اور کمیونٹیز کو متاثر کر رہی ہے۔ قرآن و حدیث زمین پر اللّٰہ کے خلیفہ کے طور پر ہماری ذمہ داری کے حوالے سے احکامات موجود ہیں ۔ ہم نے چند ایسے اسلامی حوالاجات اکٹھے کیے ہیں جو سیرت النبی ﷺ سے یہ رہنمائی فراہم کرتے ہیں کہ ہمارا اس کرہ ارض ، اس پر موجود دیگر مخلوقات اور اس کے وسائل کی طرف کیسا رویہ ہونا چاہیے ۔1. جانوروں کا احترام :۔
قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے واضح طور پر تمام جانداروں کی کمیونٹیوں کا ذکر کیا ہے گویا ان کا بھی ہماری طرح ایک نظام ہے جس میں خلل کرہ ارض میں تبدیلیوں کا سبب بن رہا ہے ۔اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے قرآن کریم میں واضح کیا ہے کہ جانور مختلف برادریوں کے رکن ہیں، جیسے ہم ہیں۔ جانور اپنی ساتھی مخلوق کا بیٹا، بھائی اور باپ ہوتا ہے۔ حسبِ ذیل آیت ہمیں جانوروں کا احترام کرنے کی دعوت دیتی ہے جس طرح ہم انسانوں کا احترام کرتے ہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:وَ مَا مِنْ دَآبَّةٍ فِی الْاَرْضِ وَ لَا طٰٓىٕرٍ یَّطِیْرُ بِجَنَاحَیْهِ اِلَّاۤ اُمَمٌ اَمْثَالُكُمْؕ-مَا فَرَّطْنَا فِی الْكِتٰبِ مِنْ شَیْءٍ ثُمَّ اِلٰى رَبِّهِمْ یُحْشَرُوْنَ(القرآن 6:38)
ترجمہ: کنزالعرفان
"اور زمین میں چلنے والا کوئی جاندار نہیں ہے اور نہ ہی اپنے پروں کے ساتھ اڑنے والا کوئی پرندہ ہے مگر وہ تمہاری جیسی امتیں ہیں ۔ ہم نے اس کتاب میں کسی شے کی کوئی کمی نہیں چھوڑی۔ پھر یہ اپنے رب کی طرف ہی اٹھائے جائیں گے۔"
(القرآن 6:38)
2. پانی ضائع مت کیجئے:-
ہمیں پانی کو ضائع نہیں کرنا چاہیے خواہ وہ بہتی ہوئی ندی کا ہی کیوں نہ ہو۔ پانی زندگی ھے ۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ آنے والے دنوں میں ملکوں کے درمیان جنگیں پانی کے لیے ہوں گی ۔ اسی حوالے سے ایک حدیث ملاحظہ فرمائیے:"ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرے، جب وہ وضو کر رہے تھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سعد رضی اللہ عنہ سے پوچھا: یہ کیسا پانی کا ضیاع ہے؟ ۔ سعد نے کہا: کیا وضو میں بھی پانی کا ضیاع ہے؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، اگرچہ تم بہتے دریا کے کنارے ہی کیوں نہ ہو۔ (ابن ماجہ)"
سبحان اللہ، کیا ہی زبردست یاد دہانی ہے!
یہ حدیث اہم وسائل کو ضائع نہ کرنے کی اہمیت کو واضح کرتی ہے، یہاں تک کہ جب کمی کا گمان بھی نہ کیا جا سکتا ہو۔بحیثیت مسلمان، یہ ہمارے کردار میں ہونا چاہیے کہ وسائل کا ضیاع نہ ہو ۔
3. جانوروں کا تحفظ:-
سیرتِ طیبہ سے ہمیں انسانوں کے ساتھ ساتھ جانوروں سے بھی شفقت، پیار اور بھلائی سے پیش آنے کا درس ملتا ہے ۔ ایک حدیث میں ہے:
"ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک آدمی کو راستے میں پیاس لگی۔ اسے ایک کنواں ملا تو اس نے نیچے جا کر اس میں سے پانی پیا۔
واپس چڑھنے کے بعد، اس نے دیکھا کہ ایک کتا ہانپ رہا ہے اور گیلی زمین کو چاٹ رہا ہے کیونکہ وہ بہت پیاسا تھا۔ اس آدمی کو معلوم ہوا کہ اس کتے کو بھی اسی طرح پیاس لگی ہوئی ہے۔ وہ واپس نیچے گیا اور اپنے جوتے کو پانی سے بھرا، پھر اسے دانتوں سے پکڑ کر کنویں پر چڑھ گیا۔
کتے نے اس میں سے پی لیا اور اللہ تعالیٰ نے اس شخص کے عمل کو پسند کیا اور اسے معاف کر دیا۔ صحابہ کرام نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا ہمیں جانوروں کے ساتھ ہمارے اچھے اعمال کا اجر ملتا ہے؟" آپ ﷺ نے جواب دیا: "جو کسی جاندار کے ساتھ بھلائی کرتا ہے اس کے لیے اجر ہے۔" (بخاری)
4. درخت لگانا صدقہ جاریہ:-
دنیا کو جنگلات کی بحالی کی اہمیت کا احساس ہو رہا گیا ہے۔ زمین کو صحرائی بننے سے بچانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں جس سے ہر سال اربوں ڈالر کا نقصان ہوتا ہیں۔ تاہم سرکار دوعالم ﷺ نے ہزاروں سال پہلے ماحولیاتی تبدیلیوں سے دنیا کو بچانے کے لیے درختوں کی اہمیت سمجھا دی تھی۔ آپ ﷺ نے ہمیشہ اپنے ساتھیوں کو درختوں کو تلف کرنے سے منع کیا اور زیادہ پودے لگانے پر بہت زور دیا۔ فرمان نبویﷺ ہے:
"حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:جو مسلمان کوئی پودا لگاتا ہے تو اس میں سے جو کچھ کھایا جاتا ہے، وہ اس کے لیے صدقہ ہو گا، جو اس میں سے چوری ہو جاتا ہے، وہ اس کے لیے صدقہ ہوگا اور اس میں گر کوئی شخص کچھ کمی کرتا ہے، تو وہ بھی اس کے لیے صدقہ ہو گا۔" ( صحیح مسلم)
5.آلودگی دور کرنے کا حکم:-
اسلام صفائی پر بہت زور دیتا ہے اور اسے نصف ایمان سمجھتا ہے۔اس نے وضو کو عبادت کے لیے شرط قرار دیا ہے۔ اسی طرح اس جگہ کو پاک صاف رکھنے کا اہتمام کرنا جس میں ہم اپنی عبادت کرتے ہیں، اور اپنے لباس کی صفائی اسلامی عبادات کے لازمی اجزاء ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضاحت فرمائی کہ ہمیں دن میں کثرت سے دانت صاف کرنا چاہییں۔ آپ نے تعلیم دی کہ کھانے سے پہلے اور بعد میں، جاگتے وقت اور بیت الخلا استعمال کرنے کے بعد ہاتھ اور منہ دھونا چاہیے۔
اسلام میں صفائی صرف جسم اور گھر تک ہی محدود نہیں ہے، بلکہ حکم دیا گیا ہے کہ دوسروں کے لیے راستہ صاف کیا جائے اور ایسی چیزوں کو ہٹا دیا جائے جن سے کسی کو تکلیف ہو۔ اس بات کو یقینی بنانے سے ماحول بھی صاف ستھرا رہتا ہے۔ اس ضمن میں حسب ذیل حدیث ملاحظہ فرمائیں:
"ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا: میری امت کے اچھے اور برے اعمال میرے سامنے پیش کیے گئے، تو میں نے ان میں سب سے بہتر عمل راستے سے تکلیف دہ چیز کے ہٹانے اور سب سے برا عمل مسجد میں بلغم تھوکنے اور اسے دفن نہ کرنے کو پایا" (صحیح مسلم)
اگر جانوروں کے بے دریغ قتل کی روک تھام ، ان کے حقوق کے تحفظ ، قدرتی وسائل کے ضیاع کی بچت اور شجر کاری کے فروغ جیسے امور پر اسلامی احکامات کی پیروی کرتے ہوئے اقدامات کیے جائیں تو جو ماحولیاتی نظام انسان کی جدیدیت کی بھینٹ چڑھ چکا ہے اسے مزید تہس نہس ہونے سے بچایا جا سکتا ہے ۔