پاکستان کے مثبت اور کمزور پہلوؤں کا جائزہ
(حصہ دوم)
پاکستان کے مثبت اور کمزور پہلوؤں کا جائزہ لیتے ہوئے پہلے حصے میں ہم پاکستان کے کچھ مضبوط پہلوؤں کا جائزہ لے چکے۔ اس حصے میں ہم پاکستان کے کچھ نمایاں کمزور پہلوؤں کاجائزہ لیں گے۔
1۔ سیاسی عدم استحکام
2۔ بے ہنر اور پسماندہ افرادی قوت
3۔ سماجی عدم مساوات اور عدل کے مسائل
1۔ سیاسی عدم استحکام:
ایک فقرہ بہت بار ہماری سماعت سے گزرتا ہے۔"پاکستان نازک موڑ سے گزر رہا ہے"۔ اس فقرے کی تکرار اس لیے ہے کہ پاکستان مسلسل سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے۔ یہ عدم استحکام پاکستان کی بہت بڑی کمزوری ہے بلکہ اگر اسے سب سے بڑی کمزوری کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔۔ کیونکہ اس کی وجہ سے معیشت پنپ نہیں پاتی، امن و امان کے مسائل ہوتے ہیں، حکومتیں کمزور ہوتی ہیں، بیرونی سازشیں کامیاب ہوتی ہیں اور سب سے بڑھ کر ملک میں انتشار پھیلتا ہے۔
پاکستان میں سیاسی عدم استحکام کی دو بڑی وجوہات ہیں۔
- اداروں کا اپنی مقرر کردہ آئینی حدود میں نہ رہنا۔
- قانون کی بالا دستی نہ ہونا۔
پاکستان کی چوہتر سالہ تاریخ میں ایک بہت بڑا المیہ یہ رہا ہے کہ پاکستان کے سیاسی نظام میں کبھی بیوروکریسی اور کبھی عسکری ادارے مداخلت کرتے رہے ہیں۔ یہ تاثر بالکل عام ہے کہ پاکستان کے فیصلے پاکستان کی سیاسی قیادت نہیں بلکہ عسکری قیادت کرتی ہے۔ اگر ان کا فیصلہ نہ مانا جائے تو وہ پورا سیاسی نظام تہہ و بالا کر کے حکومت لپیٹ کر اپنی جیب میں رکھ لیتے ہیں۔ عسکری قیادت کی اس مداخلت کی وجہ سے ان کے اور سیاسی قیادت کے درمیان ایک طرح کی رسہ کشی ہوتی رہتی ہے جس کی وجہ سے سارا ملک عدم استحکام کا شکار ہوتا ہے۔ اسی رسہ کشی کی وجہ سے حکومتیں پاکستان کے اصل مسائل کی طرف توجہ نہیں دے پاتیں اور عوام پِستی رہتی ہے۔
2۔ بے ہنر اور پسماندہ افرادی قوت:
پاکستان کی افرادی قوت میں مہارتوں کی کمی ایک ایسی کمزوری ہے جس نے پاکستان کو جکڑ رکھا ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ تو تعلیمی اداروں کا غیر معیاری ہونا ہے اور دوسرا حکومتوں کی عدم توجہی۔ ورلڈ اکونومک فورم کی 2017 کی افرادی قوت کے حوالے سے رپورٹ کے مطابق پاکستان ان 38 فیصد ممالک میں شامل ہے جہاں قحط رجال موجود ہے۔ اسی رپورٹ میں جب پاکستان کی افرادی قوت کے معیار کی رینکنگ کی گئی تو وہ 130 ممالک میں آخری دس میں تھی۔ اسی غیر معیاری افرادی قوت کی وجہ سے پاکستان اپنی صنعت کو بھی دوسرے ممالک کے مد مقابل نہیں لا پاتا۔ آج جب دنیا تیزی سے نولج اکونومی کی طرف بڑھ رہی ہے تو بہت ضرورت ہے کہ پاکستان اپنی افرادی قوت کو اس کے حوالے سے تربیت دے۔ تاکہ پاکستان کی عوام کی معاشی حالت سدھاری جا سکے۔ اس کے لیے بہت ضروری ہے کہ تعلیمی اداروں میں بڑے پیمانے پر اصلاحات لائی جائیں اور حکومت تعلیم کا بجٹ بڑھائے۔
3-سماجی عدم مساوات:
پاکستان میں شدید طبقاتی فرق موجود ہے۔ ایک طرف حکمران طبقہ ہے تو دوسری طرف محکوم۔ دونوں طبقات کے رہن سہن اور معاشرت سے لے کر نظریات اور زندگی کی ترجیحات تک ہر چیز میں بہت فرق ہے۔ دونوں طبقات میں تعلیم، صحت اور دیگر سہولیات تک رسائی میں بھی فرق ہے۔ دونوں طبقات کے معاشی وسائل بھی بہت مختلف ہیں۔ یہ سب چیزیں مل کر معاشرے میں عدم مساوات پیدا کرتی ہیں جو کہ بہر حال کسی بھی معاشرے کے لیے زہر قاتل ہوتا ہے۔ کیونکہ اس عدم مساوات کی وجہ سے ایک طبقہ جہاں احساس تفاخر میں مبتلا ہوتا ہے، وہیں دوسرا طبقہ احساس محرومی سے دو چار ہوتا ہے۔
اس پر سونے پر سہاگا کہ ملک کے انصاف کا نظام بھی کمزور ہو تو معاشرہ بہت ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے لگتا ہے۔ یہی سب پاکستان کے ساتھ بھی ہو رہا ہے جس کی وجہ سے پاکستانی معاشرے میں غیر یقینی کی صورتحال ہے، عدم اعتماد کی کیفیت ہے اور لوگ پریشان ہیں۔ 2020 کی اقوام متحدہ کے ادارے کی عالمی خوشی اور اطمنان پر رپورٹ نے بد اعتمادی کو کسی بھی معاشرے کیلیے نہایت مضر گردانا ہے۔ یہ رپورٹ بتاتی ہے کہ اس بد اعتمادی کی وجہ سے معاشرے میں ایک دورِفاسد (Vicious Cycle) چلنے لگتا ہے جس کی لپیٹ میں نا صرف شہری آتے ہیں بلکہ خود ریاست کے ادارے بری طرح متاثر ہوتے ہیں اور معاشرہ پنپ نہیں پاتا۔
اگر ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان میں یہ وشس سائیکل نہ چلے تو ہمیں چاہیے کہ ہم معاشرے سے عدم مساوات ختم کرنے کیلیے ٹھوس اقدامات کریں اور اپنے معاشرے کو برابری کی بنیاد پر استوار کریں۔
جاری ہے۔