سایہ بہ صحرا

ایک پراسرار فراخی کہ جس نے مایوسی اور خاموشی کے ساتھ اپنے آپ کو وقت کے بہاؤ کے حوالے کر دیا ہے ۔ خشک اور بےآب وگیاہ ،  جو  پہاڑوں سا غرور ہی رکھتا ہے نہ تالاب یا  نہر،  نہ چشموں کا عاشقانہ ترانہ ہے۔ نہ کوئی باغ،  پھول، نہ چراگاہ،کہ  جس پر پرندے چہکائیں، بلبلیں گیت گائیں۔۔۔

نہ راستہ، نہ سفر، نہ منزل، نہ مقصد، نہ کسی دریا کی مستانہ چال، نہ سمندر کا آغوشِ منتظر، نہ کوئی ابر،  نہ دردِ گریہء ..... کچھ بھی تو نہیں  ! ہاں کچھ بھی تو نہیں !

 

بالکل ساکت، خاموش، غمگین، مایوس، جھلسا ہوا۔ سایوں اور اندھیروں کی آماجگاہ، راندہ درگاہ ایک ایسی وسعت کہ جس کے دامن میں اندھیروں کے سوا کچھ بھی نہیں۔۔۔ نہ اسکے جوہر میں خزینہ چھپا ہے، نہ اسکے اندر کھیتی اگانے کی طاقت ہے، ایک لامتناہی پیاس اور سیراب کا ایک ایسا گورکھ دھندا، جسے تنہا چھوڑ دیا گیا ہے۔۔۔ اور اب یاس و حسرت کی آماجگاہ ہے!

 

خیال، اور افسانہ ، تباہی و بدحالی کی ایک داستان جو اپنے اندر ادھوری ہے، پیاس کی ایک ایسی سر زمین جو پانی نہیں سراب رکھتی ہے۔۔ سکون نہیں، ہراس رکھتی ہے، ریت کے طوفان اور ان طوفانوں کی خاموشی، ایک ایسا ساز جو تخلیق نہیں تباہی کا ضامن ہے۔ جس کی جھلسا دینے والی بے رحم ہوا  نشان منزل  مٹا دیتی ہے راہرؤوں کو بہکا دیتی ہے،  جس کی تپتی زمین سے خوف کھا کر کوئی سبزہ، کوئی پودا فرشِ خاک سے سر نہیں اٹھاتا، جس کے اطراف رہنے والوں کے بدن کی کھال بالکل جل گئی ہے ، جن کے چہرے خشک اور پیشانیاں شکن در شکن ہیں ۔ ان کے لیے صحرا کو دیکھنا دشوار ہے، وہ اپنے ہاتھ سے اپنی آنکھوں پر سایہ کرتے ہیں کہ صحرا سے نظریں چُرا سکیں۔ دیکھ کر بھی ان دیکھا کردیں، جان کر بھی انجان بنے رہیں۔۔۔ کیوں کہ انھیں صحرا کی وسعتوں سے گھبراہٹ ہے، اسکے المیہ سے لاپروائی ہے، صحرا جو ہمیشہ کے لیے انسانی تہذیب سے دور کردیا گیا ہے صرف پریشان خیالوں اور خرابوں کی جگہ ہے، جو کھنڈروں کا ٹھکانہ ہے جس کے مکیں مردودِ حرم ٹھہرے۔۔۔ پھولوں، اور جواہر نے اس خشک زار سے اپنا ناطہ توڑ لیا ہے اس صحرا کے غموں سے منہ موڑ لیا ہے۔۔۔

 

صحرا ایک بے اب و گیاہ، جہاں صرف پیاس ہے، لامتناہی، وسیع کبھی نہ سیر ہونے والی ایسی پیاس جس سے تند و تیز دریا بھی اپنا منہ موڑ چکے ہیں۔۔۔ صحرا جسے تنہا بھٹکنے کا عذاب دیا گیا ہے۔۔۔ تنہا جھلسنے کا، سایہ ابر، و شفقت انسانی سے بہت دور ایک خاکستر۔۔۔۔!!!

یہ  فیض اسے شاید نینوا و کربلا  نے دان کِیا ہے۔۔ کون جانے ؟کون مانے ؟ کون سمجھے ؟کِس کے پاس فُرصت ہے؟ اور پھر یہ کہ جواب آخر کون دے؟ صحرا ؤں میں بازگشت کا عذاب کون سہے؟۔۔۔ سوالی کی آواز واپس پلٹ کر نہ آئی تو صدا کا قرض کو ن چکائے گا؟