بچوں کےلیے کہانی: ایک قرآنی آیت کے ذریعے اپنے بچوں کو لڑائی جھگڑے سے بچائیں
دولت پو ر کے ہا ئی سکو ل کی یہ خو بی تھی اس میں دور دراز کے گا ؤں کے لڑکو ں کی رہا ئش کے لئے ہا سٹل مو جو د تھا۔ ہا سٹل میں اکثر زمینداروں کے بچے ہی داخلہ لیتے تھے کیو نکہ غریب کا شتکارو ں کے لئے یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ اپنے بچو ں کے لئے سکو ل کے علاوہ ہا سٹل کے اخراجات بھی بر داشت کر سکیں۔
زمیندا ر گھرانو ں کے لڑکے ہا سٹل کے ملازمین سے بھی اپنی زمنیو ں کے مزارعو ں جیسا سلوک کرتے تھے۔ اگر کسی عام کاشتکار کا لڑکا ہا سٹل میں دا خلہ لے لیتا تو یہ سب مل کر اس کا جینا دوبھر کر دیتے۔فخر و غرور سے اکڑ کر چلنا اور چھوٹے بڑے کی تمیز سے بے نیاز ان لڑکو ں نے ہا سٹل کا ما حو ل خراب کر رکھا تھا۔ہا سٹل وارڈن بھی ان کی حرکتو ں سے سخت نا لا ں تھے۔
سکول میں نئے سال کے داخلے ہو ئے تو اس کے ساتھ ہی ہا سٹل میں رہا ئش کے لئے،معمو ل کے مطابق،زمیندارو ں کے لڑکو ں نے ڈیرے جما لئے۔اس مر تبہ کسی دور دراز گا ؤں کے دو لڑکے آصف اور عاطف جن کے لئے روزانہ سکول آناجانامشکل تھا۔ان کے والدین نے اپنےکم وسائل کےباوجودمجبوراَ انہیں ہاسٹل میں داخل کروایا تھا۔زمینداروں کے لڑکو ں نے ان کے آتے ہی ان سے مذاق اور چھیڑ خانی کا سلسلہ شرو ع کردیا۔معمو لی معمو لی باتوں پر اکڑ اورغرور بھری الٹی سیدھی با تیں کرنا ان کا وطیرہ تھا۔
آصف اور عاطف نے کسی دینی کتاب میں قرآن کی یہ آیت پڑھ رکھی تھی۔
عبادالرحمن الذین یمشو ں علی الا رض ھو نا واذا خا طیھم الجھلو ن قالو اسلما۔
ترجمہ۔ رحمن کے بندے وہ ہیں جو زمین پر عاجزی سے چلتے ہیں اور جب نا دان لو گ (جا ہل ) ان سے مخاطب ہو تے ہیں تو وہ سلام کہہ کر ان سے الگ ہو جاتے ہیں ۔
آصف اور عا طف ہمیشہ اس قر آنی حکم کے مطابق کھا تے پیتے اور زمیندار وں کے بیٹو ں سے الجھنے سے گریز کرتے اور اپنے کام سے کام رکھتے۔ سب لڑکے اس بات پر حیران تھے کہ یہ کس مٹی کے بنے ہو ئے ہیں کہ ہماری ہر غلط با ت اور زیادتی کو اس طر ح نظر انداز کر دیتے ہیں جیسے سرے سے کو ئی با ت ہی نہ ہو ئی ہو۔
بابر اس گروپ کا سب سے مغرور اور خوب سر لڑکا تھا۔ وہ دل ہی دل میں سو چتا کہ آخر یہ کیسے ممکن ہے کہ یہ لڑکے ہماری ہر زیادتی پر مٹی کے ما دھو بنے رہیں؟
اسی ذہنی خلش کے ساتھ ایک دن اس نے سو چا کہ آصف اور عا طف کے کمرے میں جا کر ملا جا ئے کہ آخر وہ کیا چیز ہے کہ ہماری زیادتیو ں کا کبھی جواب نہیں دیتے؟
ایک روز شام کے وقت آصف اور عا طف اپنے کمرے میں بیٹھے مطالعہ میں مصروف تھے کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ آصف نے اٹھ کر دروازہ کھو لا تو دو نو ں کو یہ حیرت ہو ئی کہ بابر ان کے دروازے پر با ہر کھڑا تھا۔بابر نے دونوں کو اس طرح عالم حیرت میں دیکھا تو اس نے خود ہی بات کا آغاز کرتے ہو ئے کہا کہ یہ پہلا مو قع ہے کہ ہا سٹل میں دو ایسے لڑکے آئے ہیں، جو ہمارے ہر طر ح کے مذاق اور زیادتیو ں سے بے نیاز ہو کر اپنے کام سے کام رکھتے ہیں۔
آخر اس کی وجہ کیا ہے؟
عاطف نے بتا یا کہ، ہم نے قرآ ن مجید میں یہ پڑھا بھی اور سنا بھی ہے کہ دوسروں سے الجھنے کے بجا ئے اپنا دامن بچا کر نکل جا ئیں اور یہ عمل اللہ اور اس کے رسو ل ﷺ کو بہت پسند ہے،
کیا قرا ٓن مجید میں ایسی اچھی با تیں بھی مو جو د ہیں؟
بابر جس نے قرآ ن مجید کا صرف نا م ہی سن رکھا تھا، کبھی اسے پڑھا نہیں تھا ، یہ سن کر حیرت سے پو چھا۔
ہا ں! کیو ں نہیں ، قرآن مجید تو زندگی گزارنے کا مکمل ضابطہ حیات ہے،
آصف نے بتا یا۔
مگر میں تو قر آن مجید پڑھنا نہیں جا نتا، میں کیسے اس ضابطہ حیات پر عمل کر سکتا ہو ں ،
بابر نے بےچارگی سے کہا۔
قرا ٓ ن مجید عربی زبان میں نا زل ہوا ہے، لیکن اس کا اردو ترجمہ اور اس کی تعلیمات پر مبنی بے شمار کتابیں اردو میں با ٓسانی مل جا تی ہیں۔ ان کے مطالعے سے زندگی گزارنے کے سارے ڈھنگ آجاتے ہیں ،عاطف نے بتا یا۔
اگر یہ بات ہے تو میں شہر سے ایسی کتا بیں ضرور منگوا ؤں گا اور آپ کے ساتھ مل کر پڑھو ں گا، ویسے ایک راز کی بات بتا دو ں کی تم لو گو ں نے مجھ جیسے اکھڑ اور سخت مزاج لڑکے کے ساتھ حسن سلو ک کے ذریعے پتھر میں جو نک لگانے والا کام کر دکھایا ہے ۔
بابر کی یہ بات سن کر آصف اور عا طف کے چہرے خو شی سے دمک اٹھے۔