اسٹوپے :بدھ مذہب کے مقدس مقامات، پاکستان میں کہاں واقع ہیں؟
گندھارا تہذیب کی ایک خاص اہمیت اس کے آرٹ اور مجسمہ سازی کی وجہ سے ہے۔ گندھارا تہذیب بدھ مذہب کی آئینہ دار ہے۔بدھ مذہب کے مقدس مقامات میں اسٹوپوں کو بہت قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔۔۔کیا آپ اسٹوپا کے بارے میں جانتے ہیں۔۔۔پاکستان میں کہاں کہاں واقع ہیں۔۔۔؟
بات آگے بڑھانے سے پہلے آپ کو بتاتے ہیں کہ یہ گندھارا آرٹ کب شروع ہوا۔۔۔
گندھارا آرٹ کب شروع ہوا؟
کلاسیکی یونانی ثقافت اور بدھ مت کے درمیان گندھارا آرٹ ایک ثقافتی اشتراک ہے، جس کا ارتقاء وسطی ایشیا میں تقریباً ہزار سال کی مدت میں انجام پذیر ہوا۔ یہ مدت سکندر اعظم (چار صدی قبل مسیح) سے اسلامی فتوحات (7ویں صدی عیسوی) کے درمیانی عرصے پر محیط تھی۔ سنگ تراشی، مجسمہ سازی، تصویرکشی اور مختلف نقوش پر مشتمل کندہ کاری کا جو فن وجود میں آیا، اُسے گندھارا آرٹ کا نام دیا گیا۔ گندھارا نہ صرف فن کا نام ہے بلکہ یہ ایک وسیع علاقے اور ایک مکمل تہذیب کا آئینہ دار ہے۔
یہاں گندھارا آرٹ پہلی صدی عیسوی سے لے کر ساتویں صدی عیسوی تک عروج پر رہا۔ گندھارا آرٹ دراصل یونانی، ساکا، پارتھی اور کشن تہذیبوں کا نچوڑ ہے۔ گندھارا آرٹ کا مرکز یوں تو ٹیکسلا تھا لیکن اس کی جڑیں پشاور، مردان، سوات، افغانستان حتیٰ کہ وسطی ایشیا تک پھیلی ہوئی تھیں۔ سوات میں گندھارا آرٹ بُدھّا کے مختلف مجسمّوں، کندہ کاریوں اور مختلف نقش و نگار کی صورت فروزاں نظر آتا ہے۔ ادھر چینی سرحدی علاقوں میں بھی اس کے آثار ملتے ہیں۔ صوبہ پنجاب میں دوہزار سال پرانا مانکیالہ اسٹوپا ہے۔ یہ اس اعتبار سے اہمیت کا حامل ہے کہ ڈبلیو ایف سیرو (W F Cero) کی کتاب ’’گندھاراکی عبادت گاہیں‘‘ میں شائع شدہ نقشوں کے مطابق افغانستان اور روس تک پھیلی ہوئی گندھارا تہذیب کی آخری سرحد مانکیالہ کا اسٹوپا تھی۔۔۔۔
کیا آپ اسٹوپے کے بارے میں جانتے ہیں۔۔۔پاکستان میں مشہور اسٹوپے کہاں واقع ہیں؟ آئیے اس کی کھوج لگاتے ہیں۔
اسٹوپے: بدھ مذہب کے مقدس مقامات
گوتم بدھ کی وفات کے بعد بدھوں میں زیارت کا رواج عام ہو گیا ۔یہ روایت مشہور ہو گئی کہ گوتم بدھ نے چار مقامات کی زیارت کرنے کی ہدایت کی تھی۔ ایک تو لمبینی باغ، جہاں بدھ پیدا ہوئےتھے۔ دوسرا گیا کے قریب درخت، جس کے نیچے اُنہیں گیان حاصل ہوا تھا۔ تیسرا بنارس کا ہرن باغ، جہاں اُنھوں نے مذہب کی پہلی دفعہ تعلیم دی تھی۔ چوتھا کشی نگر، جہاں اُنھوں نے وفات پائی۔ اشوک کے دور میں بدھ مت نے عروج پایا، اس نے اپنی سلطنت کے آٹھ مقامات پر اسٹوپے تعمیر کرائے تھے۔ ہر اسٹوپے میں گوتم بدھ کے تھوڑے تھوڑے تبرکات محفوظ کیے گئے، ٹیکسلا کا دھرم راجیکا ان میں سب سے بڑا تھا۔
شاہی اسٹوپوں کی دیکھ بھال کے لیے بدھ راہب مقرر تھے۔ ان کے رہنے کے لیے وہار (مندر) بنا دیے گئے اور آس پاس کی زمین اس مقصد کے لیے وقف کردی گئی۔ گوتم بدھ کی خاک آٹھ اسٹوپوں میں محفوظ کی گئی تھی، اشوک نے ان آثار کو نکال کر سلطنت کے تمام بڑے شہروں اور صوبوں میں بھجوا دیا اور حکم دیا کہ وہاں شاندار اسٹوپے تعمیر کروا کر انھیں دفن کیا جائے۔ یوں یہ خاک 84ہزار اسٹوپوں میں محفوظ ہوئی، چنانچہ ان اسٹوپوں کو بدھ کی قبر بھی کہا جاتا ہے۔ یہ اسٹوپے مہاتما بدھ کی زندگی کے بارے میںپتھریلی کتاب تھے۔ اسٹوپے کے گنبد پر ہمیشہ سات چھتریاں ہوتی تھیں، جو سات آسمانوں کو ظاہر کرتی تھیں۔
پاکستان میں واقع اسٹوپے
پاکستان کے صوبے پنجاب کی بات کی جائے تو یہاں شمال میں وسیع و عریض رقبے پر بدھ مذہب کے آثار دریافت ہوئے ہیں جن میں اسٹوپے اور خانقاہیں شامل ہیں۔ تقریباً تمام دریافتیں ضلع راولپنڈی میں ٹیکسلا اور اس سے ملحقہ علاقوں میں ہوئی ہیں، جب کہ جنوب میں رحیم یار خان کے علاقے میں بھی بدھ خانقاہ کے آثار ملے ہیں۔
ٹیکسلا: اسٹوپوں کی سرزمین
ٹیکسلا، راولپنڈی سے 22 میل دور ایک قدیم شہر ہے جس کے لفظی معنی’’کٹے ہوئے پتھر کا شہر‘‘ کے ہیں۔ اس شہر کو بدھ مت کی تاریخ کے ماتھے کا جھومر کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ یہیں راجا امبھی نے سکندرِ اعظم کی اطاعت قبول کی جس کے بعد سکندر راجا پورس سے لڑنے کے لیے جہلم کے کنارے پہنچا۔ باختر کے یونانی حکم رانوں دیمریس نے 190 ق م میں گندھارا کا علاقہ فتح کرکے ٹیکسلا کو اپنا پایہ تخت بنایا۔ مہاراجا اشوک اعظم کے عہد میں بھی اس شہر کی رونق پورے عروج پر تھی اور یہ بدھ تعلیم کا مرکز تھا۔ ساتویں صدی عیسوی میں مشہور چینی سیاح’’ہیون سانگ‘‘ یہاں آیا تھا۔ اس نے اپنے سفرنامے میں اس شہر کی عظمت و شوکت کا ذکر کیا ہے۔ ٹیکسلا شہر سے دریافت ہونے والے کچھ کھنڈرات چھٹی صدی سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں سے مَیورا سلطنت، ہند یونانی اور کشان سلطنت کے زمانے کی بھی کافی چیزیں دریافت کی گئی ہیں۔ ایک روایت کے مطابق ٹیکسلا کی یونیورسٹی دنیا کی سب سے پہلی یونیورسٹی تھی۔
ماضی قریب میں ٹیکسلا کے کھنڈرات کو’’سر الیگزینڈر کننگھم‘‘ نے 19 ویں صدی میں دوبارہ دریافت کیا۔ 1980 میں اسے یونیسکو نے’’عالمی ثقافتی ورثہ‘‘ قرار دیا، جب کہ 2006 میں یہ پاکستان میں سیاحوں کا پسندیدہ ترین مقام قرار پایا۔ یہاں گوتھک اسٹائل کا ایک خوب صورت عجائب گھر قائم ہے، جس میں پانچویں صدی قبل مسیح کے گندھارا آرٹ کے نمونے، دس ہزار سکے (جن میں بعض یونانی دور کے ہیں) زیورات، ظروف، پتھر، بدھا کے مجسمے اور دیگر قیمتی نوادرات رکھے ہیں۔ تاریخ سے دل چسپی رکھنے والوں کو یہ عجائب گھر ضرور دیکھنا چاہیے۔
سرکپ، ٹیکسلا:
سِرکپ کے قدیم شہر کے کھنڈرات ٹیکسلا میوزیم سے کچھ فاصلے پر واقع ہیں۔ یہ 180 قبلِ مسیح میں قدیم ہند سلطنت کے مہاراجہ دمِترس کا بسایا گیا شہر ہے۔ کہتے ہیں کہ بادشاہ مہندرا اول نے اسے دوبارہ بنایا تھا۔ 1912 سے 1930 کے درمیان’’سر جان مارشل‘‘ کی زیرِ نگرانی اس جگہ کی کھدائی کی گئی تھی۔ سرکپ سے ایک قدیم اسٹوپے اور مندر کے آثار بھی ملے ہیں۔ یہاں جگہ جگہ آپ کو قدیم یونانی طرز کے نقش و نگار ملیں گے جو آج بھی جِدت کے ساتھ ایتھنز شہر کے طول و عرض میں دیکھے جا سکتے ہیں۔
جنڈیال ٹمپل ، ٹیکسلا:
جنڈیال ٹیکسلا کے پاس دوسری صدی قبلِ مسیح کا ایک قدیم اور پرشکوہ یونانی مندر ہے جو سرکپ کے پاس ایک اونچے چبوترے پر واقع ہے۔ اس کی کھدائی 1912 سے 1913 میں کی گئی تھی۔ اسے اپنے یونانی فنِ تعمیر کی بدولت برِصغیر کی دھرتی پر ابھی تک دریافت کی جانے والی سب سے زیادہ’’خالص یونانی عمارت‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس مندر کے ستون اور فرش، یونان میں پائے جانے والے مندروں سے ہو بہو ملتے جلتے ہیں۔
دھرما راجیکا اسٹوپا، ٹیکسلا:
دھرما راجیکا یا دھرم راجیکا کا بُدھ سٹوپا ٹیکسلا میں واقع ہے۔ دوسری صدی میں بنائے گئے اس اسٹوپے کو ٹیکسلا کا عظیم اسٹوپا بھی کہا جاتا ہے۔ یہ اسٹوپا بُدھا کی چھوٹی چھوٹی ہڈیوں کو دفن کرنے کے لیے تعمیر کیا گیا تھا۔
کہا جاتا ہے کہ دھرماراجیکا اسٹوپا، راجا اشوک کے بنائے گئے ایک اسٹوپے کی باقیات پر بنایا گیا ہے۔ یہاں سے دوسری صدی قبل مسیح کے ہند یونانی سِکے بھی دریافت کیے گئے ہیں۔
ہُن دورِحکومت میں اسے شدید نقصان پہنچایا گیا تھا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ہُن حکم رانوں نے بُدھ مت کے ماننے والوں پر بہت ظلم ڈھائے۔ ان کے زمانے میں گندھارا کی ہزاروں بدھ خانقاہیں گرا دی گئیں۔ یہ جگہ بھی 1913 میں سر جان مارشل کی زیرِنگرانی کھودی گئی۔ ان کی دریافت سے پہلے یہ اسٹوپا بہت بری حالت میں تھا۔ 1934 میں کافی جگہ کی کھدائی کے بعد یہاں کُھلے میدانوں سے انسانی ڈھانچے برآمد ہوئے جو تاریخ دانوں کے مطابق ان بُدھ راہبوں کے تھے جنہیں ہُن حکم رانوں نے قتل کیا تھا۔
بھر ماؤنڈ کے کھنڈرات، ٹیکسلا:
بھڑ ماؤنڈ، ٹیکسلا کے کھنڈرات کا قدیم ترین حصہ ہے۔ اس شہر کے کھنڈر شمالاً جنوباً 1 کلومیٹر اور شرقاً غرباً قریباً 600 میٹر رقبہ پر واقع ہیں۔ ان کھنڈرات کا سب سے پرانا حصہ پانچویں اور چھٹی صدی قبل مسیح سے تعلق رکھتا ہے۔ اس کے بعد والی سطح چوتھی صدی قبل مسیح سے ہے جو سکندراعظم کے حملے کے وقت آباد تھی۔ تیسری سطح موریا بادشاہوں کے وقت میں تیسری صدی قبل مسیح میں آباد تھی۔ کھنڈر کی چوتھی اور سب سے بالائی سطح موریا خاندان کے بعد کے زمانہ سے تعلق رکھتی ہے۔
شہر کی تنگ گلیاں یہ ظاہر کرتی ہیں کہ یہاں واقع گھر بلاترتیب تھے۔ گھروں میں باہر کی جانب کوئی کھڑکیاں نہ تھیں بلکہ تمام کھڑکیاں اندر صحن میں کھلتی تھیں۔
بھڑماونڈ کے کھنڈرات کو پہلی دفعہ سر جان مارشل نے 1913 سے 1925 کے عرصہ میں کھودا۔
موہرا مُرادو کی خانقاہ:
موہرا مرادو بھی ٹیکسلا میں واقع ایک قدیم بدھ اسٹوپا اور درس گاہ کا کھنڈر ہے۔ یہ علاقہ نہایت خوب صورت اور پہاڑوں سے گھرا ہوا ہے۔ یہ شہر دوسری صدی عیسوی میں تعمیر کیا گیا تھا اور کشن سلطنت سے تعلق رکھتا ہے۔یہ کھنڈر تین حصوں پر مشتمل ہے۔ بڑا اسٹوپا، نذرانے کا اسٹوپا اور درس گاہ۔ قدیمی درس گاہ یا خانقاہ میں طالب علموں کے لیے 27 کمرے موجود ہیں جو ایک مرکزی تالاب کے ارد گرد واقع ہیں۔ مستطیل شکل کے اس تالاب کی گہرائی نصف میٹر تھی اور اس کا پانی مذہبی مقاصد کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ بارش کا پانی چھت سے لکڑی کے پرنالوں کے راستہ تالاب میں گرتا تھا۔ تالاب میں اترنے کے لیے چاروں طرف زینے موجود ہیں۔ درس گاہ میں ایک باورچی خانہ بھی موجود ہے اور ایک کنواں بھی جو آج بھی استعمال ہو سکتا ہے۔ بدھا کے مجسمے درس گاہ کے صحن اور طالب علموں کے کمروں میں بکثرت موجود ہیں۔ درس گاہ میں ایک طرف اجتماع کا بڑا کمرہ بھی بنا ہوا ہے۔ایک خاص یادگار بھی درس گاہ کے ایک کمرہ میں موجود ہے جو تقریباً 4 میٹر بلند ہے۔
مانکیالہ اسٹوپا، راولپنڈی:
مانکیالہ اسلام آباد سے 36 کلومیٹر جنوب میں روات قلعے کے قریب واقع ہے۔ اس علاقے کی ایک وجہ شہرت یہاں ماجود گوتم بدھا کا وہ اسٹوپا ہے جہاں ایک روایت کے مطابق بُدھا نے سات بھوکے چیتے کے بچوں کو اپنے جسم سے کچھ گوشت کاٹ کر کھلایا تھا۔
کہا جاتا ہے کہ یہ اسٹوپا راجا مانک نے تعمیر کروایا تھا اور اس جگہ کا پرانا نام بھی’’مانک پور‘‘ یا’’مانک نگر‘‘ تھا جو ہندو دھرم کے مطابق قدیم ہندو راخشسوں (بدی کے پیروکار، دیومالائی کردار) کا گڑھ تھا، لیکن یہ بات کسی مستند حوالے سے ثابت نہیں کی جا سکی۔
منکیالا کی تاریخ 2000 سال پرانی ہے جب یہ گندھارا سلطنت میں ایک بدھ خانقاہ تھی اور یہاں 15 کے قریب اسٹوپے تھے۔ موجودہ اسٹوپا کنِشک کا تعمیر کرایا ہوا ہے جسے آگ لگنے کے باعث کافی نقصان پہنچا تھا۔ لیکن اس کے مکمل تباہ ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ یہاں کھنڈرات سے نکلنے والی تمام قیمتی اشیاء کو برطانیہ لے جایا گیا اور آج وہ برٹش میوزیم کی زینت ہیں۔
پتن مِنارہ، رحیم یارخان:
رحیم یار خان سے جنوب میں ابوظبی محل روڈ پر تقریباً 15 کلومیٹر کے فاصلے پر پتن منارہ واقع ہے جسے تاریخ داں ایک قدیم بدھ خانقاہ قرار دیتے ہیں۔ پتن منارہ تاریخ میں پتن پور کے نام سے جانا جاتا تھا۔ بعض محققین کے مطابق پتن پور سکندراعظم نے تعمیر کروایا تھا اور یہاں اک بہت بڑی درس گاہ تعمیر کی تھی، جب کہ کچھ کے نزدیک یہ شہر سکندراعظم کے زمانے سے بھی پہلے کا آباد تھا اور صحرائے چولستان میں سے گزرنے والا ایک قدیم دریا’’ہاکڑا‘‘ یا’’گھاگھرا‘‘ پتن پور کے قریب سے بہتا تھا۔ سکندراعظم نے اس شہر کو فتح کرنے کے بعد کچھ عرصہ اپنی فوج کے ساتھ یہاں قیام کیا تھا۔ اسی قیام کے دوران سکندراعظم نے یہاں ایک مینار تعمیر کروایا، جس کا نام پتن منارہ تھا۔
پتن پور موہن جوڈارو اور ٹیکسلا کی تہذیبوں کا امین رہا ہے۔ اور تاریخ میں ہندومت ، بدھ مت کا خاص مرکز رہا ہے۔ شومئی قسمت کہ اس کے کنارے بہنے والا دریائے ہاکڑا موسمی تبدیلیوں کے باعث خشک ہوگیا۔ دریا خشک ہونے سے پتن پور کی عظمت رفتہ رفتہ ختم ہونے لگی۔ اور ایک وقت آیا کہ پورا علاقہ ویران ہوگیا۔ بعض روایات کے مطابق پتن منارہ کی حدود میں کوئی خزانہ دفن ہے۔ انگریزوں کے دورحکومت میں کرنل منچن نے اس خزانے کو تلاش کرنے کی ایک ناکام کوشش کی مگر کچھ ہاتھ نہ آیا۔
رحیم یار خان میں دریائے ہاکڑہ کے کنارے پر آباد پتن پور کے یہ کھنڈرات آج اپنی داستان بتانے سے بھی قاصر ہیں۔ اب یہ صرف اینٹوں کا مینار باقی رہ گیا ہے، جو کسی وقت بھی زمین بوس ہو سکتا ہے۔