16 اکتوبر 1951: جب پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خانؒ کا قتل ہوا
نوابزادہ لیاقت علی خان: پاکستان کے پہلے وزیر اعظم کی اکہترویں(71) برسی آج منائی جارہی ہے
کیسی حیرت کی بات ہے کہ ہم اپنی تاریخ کو فراموش کرتے جارہے ہیں۔ آج 16 اکتوبر ہے اور آج سے اکہتر(71) برس قائداعظمؒ کے دستِ راست اور پاکستان کے پہلے وزیر اعظم نوابزادہ لیاقت علی خان کو ایک عوامی جلسے میں شہید کردیا گیا۔ ان کی زندگی پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔۔۔ان کی زندگی کے اہم واقعات کو سال وار بیان کیا جارہا ہے۔
نوٹ: نوابزادہ لیاقت علی خانؒ کی زندگی سے متعلق معلومات شمیم شاہ آبادی کی مختصر کتاب "شہیدِ ملت خان لیا علی خانؒ" سے ماخوذ ہیں۔ یہ کتاب نظریہء پاکستان فاؤنڈیشن نے شائع کی۔
ابتدائی حالات
پیدائش: یکم اکتوبر 1895ء بمقام کرنال (مشرقی پنجاب)
والد کا نام: نواب رستم علی خان
یاد رہے کہ ان کے دادا نواب احمد علی خان بہت مشہور شخصیت تھے۔ انگریزوں نے نہ صرف ان کی جاگیر میں اضافہ کیا بلکہ انھیں رُکن الدولہ، شمشیرِ جنگ اور نواب بہادر کے خطبات سے بھی نوازا۔
تعلیم کا حصول:
1905 میں ایم اے او کالجیٹ سکول علی گڑھ میں داخل ہوئے۔
1919: میں گریجویشن کی تعلیم مکمل کی۔
1919: اسی برس قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے لندن روانہ
1921: قانون کی ڈگری حاصل کی۔
سکول کے زمانے کا ایک دل چسپ واقعہ:
1911ء میں لیاقت علی خان ایم اے او کالجیٹ سکول علی گڑھ میں چَھٹی جماعت کے طالب علم تھے۔ وہ اپنی جماعت کے مانیٹر اور کرکٹ ٹیم کے کپتان بھی تھے۔ انھیں ایک مرتبہ جماعت میں اول آنے پر ایک کتاب تحفتاً پیش کی گئی لیکن انھوں نے یہ تحفہ قبول کرنے سے انکار کردیا۔ انھوں نے کہا کہ مین جتنی چاہوں کتابیں خرید سکتا ہوں۔ میں یہ تحفہ اسی وقت قبول کروں گا جب مجھے اس کے ساتھ ڈبل ترقی بھی دی جائے۔ انسپیکٹر آف سکولز اس تقریب سے خطاب کررہے تھے۔ انھوں نے لیاقت علی خان کی یہ شرط قبول کرلی۔
سیاست میں دل چسپی:
1920-21 میں آکسفرڈ میں قیام کے دوران سیاست میں دل چسپی لینا شروع کردی۔
1926: اترپردیش (یُو پی) میں عام انتخاب میں حصہ لیا اور اپنے ضلع مظفرنگر سے قانون ساز کونسل کے رُکن منتخب ہوئے۔
1932: یوپی اسمبلی کے نائب صدر (ڈپٹی سپیکر) منتخب ہوئے۔
1932: جمہوری پارٹی کے نام سے سیاسی جماعت کا قیام، پہلے صدر منتخب
قائداعظمؒ سے ملاقات اور مسلم لیگ میں شمولیت:
لیاقت علی خانؒ کی قائد اعظم محمد علی جناحؒ سے باقاعدہ ملاقات سے قبل ہی وہ ان کے مداحوں میں شامل ہوگئے۔ 1928 میں سائمن کمیشن کے بارے میں انھوں نے قائد اعظمؒ کے موقف کی حمایت کی۔ ان کی کوششوں کی وجہ سے یوپی کونسل میں حکومت سائمن کمیشن کی حمایت میں قرارداد پاس نہ ہوسکی۔
ستمبر 1934: لندن میں اپنی اہلیہ بیگم رعنا لیاقت علی خان کے ہمراہ قائداعظمؒ سے ملاقات کی۔
1935: مسلم لیگ کے اعزازی جنرل سیکرٹری مقرر
12 -اپریل 1936: باقاعدہ طور پر مسلم لیگ کے جنرل سیکرٹری مقرر
قائداعظم کے دستِ راست:
ان کی ایک نمایاں پہچان قائداعظمؒ کے قریبی ساتھیوں کے طور پر بھی ہے۔ ایک موقع پر قائداعظم نے لیاقت علی خان کو اپنا "دستَ راست" (رائٹ ہینڈ) قرار دیا تھا۔
5 دسمبر 1945: عام انتخابات میں کامیابی
2 ستمبر 1946: کانگریس اور مسلم لیگ کی عبوری حکومت میں شمولیت
لیاقت علی خان بطور وزیراعظم پاکستان:
15-اگست 1947: لیاقت علی خانؒ نے پاکستان کے پہلے وزیر اعظم کے طور پر حلف اٹھایا۔
مارچ 1949: قراردادِ مقاصد کی منظوری
25 نومبر 1949: کراچی میں اسلامی اقتصادی کانفرنس کا انعقاد
3 مئی 1950: لیاقت علی خان کا دورہ امریکہ
9 مارچ 1951: راولپنڈی سازش کیس، لیاقت علی خانؒ کا تختہ الٹنے کی ایک سازش منظرِ عام پر آئی۔
لیاقت علی خانؒ کا قتل:
16 اکتوبر 1951: لیاقت علی خان کو ایک عوامی جلسے میں گولی مار کر شہید کردیا گیا۔
سابق جاپانی وزیر اعظم شنزو ایبی اور لیاقت علی خان کے درمیان کیا چیز مشترک ہے؟اپنی تقریر میں انھوں نے ابھی "برادرانِ ملت" ہی کہا تھا کہ سید اکبر نامی افغانی نے دو گولیاں مار کر لیاقت علی خانؒ کو موت کی نیند سُلادیا۔ ان کے قاتل کو اہلکاروں نے موقع پر ہی ہلاک کردیا۔ قتل کے محرکات کا آج تک پتا نہیں چل سکا۔
طویل عرصہ فائز رہنے والے وزیراعظم:
وہ پاکستان کے واحد وزیراعظم ہیں جو طویل عرصہ تک وزاتِ عظمیٰ کے عہدے پر فائز رہے۔ وہ وزارتِ عظمیٰ کے عہدے پر چار سال، دو ماہ اور ایک دن براجمان رہے۔
لیاقت علی خان کے دورِ حکومت کے چند مثبت پہلو:
- قائداعظمؒ کے دستِ راست اور پاکستان کے پہلے وزیر اعظم کا اعزاز حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ انھیں "قائدِ ملت" اور "شہیدِ ملت" کے خطابات بھی دیے گئے۔
- نوزائیدہ ملک کی باگ ڈور سنبھالی اور اقتصادی صورت حال کو مستحکم اور مضبوط کیا۔ ان کے دورِ حکومت میں ایک سو پاکستانی روپے ، 144 بھارتی روپے کے مساوی تھے۔
- دنیا کی سب سے بڑی جوٹ مل کا قیام
- کوٹری بیراج کا سنگ بنیاد
- عوامی جمہوریہ چین کو سب سے پہلے تسلیم کرنے میں پاکستان کو اعزاز حاصل ہے۔ یہ لیاقت علی خانؒ کے دورِ حکومت میں ہوا۔
- روس میں پاکستانی سفیر کو مقرر کیا۔
- قراردادِ مقاصد کی منظوری
- قیام پاکستان کے وقت پاکستان کا ایک بھی بنک نہیں تھا، لیاقت علی خانؒ کے دور میں 124 بنک قائم ہوئے۔
ان کی باکمال شخصیت اور خدمات کے بارے میں کم ہی ذکر کیا جاتا ہے۔ یہ بھی قابل افسوس بات ہے کہ آج تک ان کے قتل کے بارے کوئی تحقیق نہیں کی جاسکی۔ یاد رکھیے کہ جو قوم اپنی تاریخ یاد نہیں رکھتی، وہ ہمیشہ احساس کمتری اور ذہنی غلامی کا شکار رہتی ہے۔ اپنی نابغہ روزگار شخصیات کو یاد رکھنے سے بھی ہمیں بلند حوصلہ، ہمت، جذبہ اور آگے بڑھنے کا حوصلہ ملتا ہے۔ ہمیں اپنے اکابرین کو یاد کرتے رہنا چاہیے اور نئی نسل کو پاکستان کی تاریخ سے آگہی کا اہتمام بھی کرنا چاہیے۔