پاکستان کے 75 سال اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا پیغام
ہر سال کی طرح اس سال بھی یوم عاشور پورے ملک میں روایتی عقیدت و احترام سے منایا گیا ۔ سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام اور ان کے خانوادے کی بقائے دین کے لئے دی گئی لازوال اور بے مثال قربانی ہر نذرانائے عقیدت پیش کرنے کے لیے مجالس اور جلوس کا انعقاد کیا گیا ۔ سبیلیں لگائی گئیں ۔ نذر نیاز تقسیم ہوئی ۔ ہر دل سوگوار اور ہر آنکھ اس دن غم حسین علیہ السلام میں نم نظر آئی ۔ حق اور باطل کے اس عظیم معرکے کی یاد کو تازہ کیا گیا اور اگلے روز غم و الم کا وہ لبادہ جو یکم محرم سے دسویں محرم تک اوڑھا گیا تھا اتار کر ہم سب پھر دنیا داری کے کام دھندوں میں مگن ہو گئے ۔ نہ کوئی کربلا یاد رہی نہ اس کا درس۔۔۔!
یہ کیسی عزاداری ہے؟ یہ کیسا غم حسین ہے ؟ جو ایک رات کی مسافت بھی نہ طے کر پایا۔۔۔ جو شامِ غریباں کے ساتھ ہی غروب ہو گیا ۔ حسینیت تو پیہم رواں ۔۔۔ ہر دم جواں جذبے کا نام ہے ۔۔۔ جو عشاق کی رگوں میں خون کی طرح دوڑتا ہے ۔۔۔ حسین علیہ السلام میرے نزدیک ضمیر کا دوسرا نام ہے جو ہمہ وقت نفس پلید کے یزید کی برپا کردہ کربلا میں برسر پیکار رہتا ہے ۔۔۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ معرکہ وجود میں ہم کس کا ساتھ دیتے ہیں۔
صدقِ خلیل بھی ہے عشق، صبرِ حسین بھی ہے عشق
معرکہء وجود میں بدر و حنین بھی ہے عشق!
(علامہ محمد اقبال)
اس برس کا یوم آزادی محرم الحرام کے محترم مہینے میں آیا ہے ۔ 14 اگست کا دن بھی ہمارے آباء کی ان لازوال قربانیوں کی یاد تازہ کرنے کا ایک موقع فراہم کرتا ہے جس کے نتیجے میں یہ مقدس مملکت معرضِ وجود میں آئی جسے اسلامی جمہوریہ پاکستان کا نام دیا گیا ۔۔۔ جسے بنانے والوں کا نعرہ تھا ۔۔' پاکستان کا مطلب کیا ۔۔۔ لا الہ الااللہ ' ۔۔۔ وہی لا الہ الااللہ جس کی بقاء کی جنگ حضرت امام حسین علیہ السلام نے لڑی تھی ۔
جس طرح حسینیت حق اور باطل کی جنگ میں راہِ حق کے متوالوں کے ایک اندازِ فکر کا نام ہے جو فقط ضمیر کی آواز سنتے ہیں اور اس کے لیے کسی طرح کی قربانی دینے سے گریز نہیں کرتے اسی طرح یزیدیت بھی ایک طرزِ فکر ہے جو نفس کی پیروی کا درس دیتا ہے ۔ جس کے لیے دنیا کی عیش و عشرت اور مال و اسباب ہی سب کچھ ہے۔ بابر با عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست اس نظام فکر کی بنیاد ہے۔ ہماری زندگی کے ہر قدم پر ایک دوراہا ہوتا ہے ۔۔۔ ہر موڑ پر قدرت ہم سے سوال کرتی ہے کہ بتا تیری رضا کیا ہے ۔۔۔ حسینیت کا رستہ یا یزیدیت کی راہ۔۔۔!
قیام پاکستان کے وقت بھی ہمارے آباء کے سامنے یہی سوال تھا کہ وقت کے یزید یعنی انگریز اور ہندو سے سمجھوتا یا لاالہ الااللہ کی صدائیں بلند کرتے ہوئے ایک آزاد اور خود مختار پاکستان بنانے کا حسینی راستہ ۔۔۔ انہوں نے حسینی راہ کا انتخاب کیا جو کٹھن بھی تھی اور قربانیوں کی متقاضی بھی ۔۔ پاکستان بن گیا!
اس کے بعد کی نسل کے آگے پھر ایک دوراہا تھا ۔۔۔ خودداری کا حسینی راستہ اور وقتی مفادات کے لیے دوبارہ اپنی آزادی کو غلامی میں بدلنے کا راستہ ۔۔۔ اس نسل میں یہ کارواں دو دھڑوں میں بٹ گیا ۔۔۔ کچھ لوگوں نے حسینیت کے راستے پر قدم جمائے رکھے اور کچھ یزیدیت سے سمجھوتا کرنے پر اصرار کرنے لگے۔۔۔!
آج وطن عزیز کی پچھترویں سالگرہ کے موقع پر ہم دوبارہ ایک دوراہے پر کھڑے ہیں ۔۔۔ ایک طرف اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں سے سیکھ کر ۔۔۔ کرپشن ، رشوت ، سفارش کی لعنتوں سے جنگ کر کے ایمانداری ، میریٹوکریسی اور تقویٰ کے نور سے معمور صاف ستھرے معاشرے کے قیام کا حسینی راستہ ہے تو دوسری جانب استحصال اور ناانصافی پر قائم موجودہ نظام کے ساتھ چلنے کا یزیدی راستہ ہے ۔۔۔
اب کس راہ چلنا ہے ۔۔۔ فیصلہ ہمارا ہے!