پانیوں سے جو ہوتی جلَن
بچپن میں سب سے زیادہ تفریح بارش میں نہانے سے حاصل ہوا کرتی تھی, لیکن اس کے لئے بہت پاپڑ بیلنا پڑتے تھے, ہمارے ہاں ماؤں سے اجازت لینا ایک دشوار مرحلہ ہوتا ہے۔ ہماری ماؤں نے بارش کی اقسام بنا رکھی ہیں کہ فلاں بارش میں نہانا ٹھیک ہے ، فلاں میں نہیں. میری والدہ ہمیشہ اس معاملہ میں حساس رہی ہیں ۔ وہ تو خوبیِ تقدیر کہ مَیں برسات میں اپنے ننھیال ہوا کرتا تھا اور نانو حضور کی مداخلت پر ہمیں(کزنز) بارش میں نہانے کی اجازت مل ہی جایا کرتی تھی. گرتے قطروں کا زمین سے ٹکرا کر اچھلنا, گلی میں نہر کا چل پڑنا، نہر میں کاغذ کی کشتی اور کشتی کا بہاؤ کے ساتھ چلنا ۔۔۔ یہ سب مشاہدات بنا کسی ٹھوس وجہ کے ہی خوشی کا باعث ہوتے تھے.
آج برسات بھی وہی ہے, چھت بھی وہی ہے اور میں بھی لیکن یہ بارش یقیناً ویسی خوشی نہیں دے رہی, بارش میں بھیگتے ہوئے میں خوش ہونے سے زیادہ سوچ رہا ہوں اور لوگوں کو دیکھ رہا ہوں کہ ایک بارش مختلف عمر اور کیفیت کے افراد پر مختلف اثر رکھتی ہے.
میری چھت کے بالکل نیچے کچھ بچے کھیل رہے ہیں, پرنالے سے گرنے والے پانی کے نیچے ایک دوسرے کو دھکیل رہے ہیں, گلی میں چھوٹی چھوٹی بچیاں پانی میں چھلانگیں لگا رہی ہیں, ہر غم اور ہر فکر سے آزاد یہ بچے بارش سے محظوظ ہورہے ہیں.
میرے سامنے ایک چھت پر سات آٹھ سال کی لڑکی اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کے ساتھ اچھل کود کر رہی ہے. پڑوس میں ایک ادھیڑ عمر خاتون اور ایک دوشیزہ کچھ باتیں کر رہی ہیں۔ دونوں کے چہروں پر سنجیدگی ہے، وہ بارش سے محظوظ نہیں ہورہیں بلکہ وہ اس بارش میں صرف اس بچے کی وجہ سے ہیں جو بارش میں کھیل رہا ہے۔ سامنے والوں کے مکان میں ایک نوجوان کھڑکی سے ٹیک لگائے کچھ سوچ رہا ہے, مگر اس کے خیالات کا محور بارش نہیں بلکہ کچھ اور ہے جس کا اندازہ اسکے کھوئے ہوئے اداس چہرہ سے ہوسکتا ہے. نیچے گلی میں ایک سیاسی دفتر میں چند ادھیڑ عمر افراد بیٹھے سیاست پر گفتگو کر رہے ہیں, چند لڑکے بارش سے بے نیاز اپنے موبائل پر مصروف ہیں, ایک باپ اپنے بچے کو گھر کی طرف کھینچ رہا ہے.
بارش ہر شخص پہ اسکے اپنے مزاج کے مطابق اثر کر رہی ہے, خوشی اور غم کا تعلق موسموں سے نہیں بلکہ انسان کہ اندرونی خیالات سے ہے. میں بارش سے لطف اندوز ہونے آیا تھا مگر اس وقت سوچ رہا ہوں کہ چارلی چپلن کو بارش میں چلنا پسند تھا کہ وہ یوں اپنے آنسو چھپا سکے, یہ بارش جو گر رہی ہے، یقیناً اس میں تیزابیت ہوگی اور یہ میری جلد پر کیا اثر دکھائے گی. وہ کھڑکی سے لگا نوجوان لڑکا ان بچوں کی طرح اس موسم سے لطف اندوز کیوں نہیں ہو رہا, میں بھی گلی میں کھیلتے بچوں کو دیکھ رہا ہوں مگر انکی طرح چہک نہیں رہا. انسان کی خوشی اور غم کا تعلق کن چیزوں سے ہے. یہ بارش کسی کسان کی کھڑی فصل کو برباد کردے گی, اور کسی کی بارانی زمین کو پیداوار بخشے گی, کہیں یہ سیلاب بن کر کوئی گھر بار اور خواب بہا لے جائے گی.
در حقیقت اس دنیا کی رنگینی انسان کے ذہن میں موجود خوشی اور غمی کے امتزاج کا نام ہے. باہر کا موسم سب کے لئے ایک جیسا ہے مگر مختلف عمر اور کیفیت کے افراد پر اسکا اثر مختلف ہے۔ انسان کو ان بچوں کی مانند ہونا چاہیے جو اس لمحہ میں جی رہے ہیں, کل ان میں سے کسی کو چوٹ لگی ہوگی, کسی کو استاد سے مار پڑی ہوگی, آج کسی کا ہوم ورک مکمل نہیں ہوگا مگر وہ ان سب باتوں سے بے نیاز خوش ہیں اور اس لمحہ کو جی رہے ہیں کیونکہ انھوں نے خوش رہنے کو ترجیح دی ہے. دکھ اور خوشی زندگی کا حصہ ہیں مگر فیصلہ آپکے اختیار میں ہے کہ آپ کس کو چنتے ہیں.
آپ کے چاہنے سے دن کے وقت رات نہیں ہو سکتی اور رات کو دن نہیں ہوسکتا, ہاں یہ ضرور ہے کہ آپ رات میں چراغ جلا کر روشنی کر سکتے ہیں یا اندھیروں کے اسیر بھی ہو سکتے ہیں. فیصلہ آپ کے اختیار میں ہے کہ آپ کس کو چنتے ہیں. خوشی کا انتخاب کیجیے۔ خوش رہنا ایک کیفیت نہیں، عادت کا نام ہے۔ دل کے موسم کو خوشگوار بنائیے، باہر کا موسم خود بخود سہانا ہو جائے گا۔
شاید کہ تِرے دل میں اتر جائے مِری بات