نوبل انعام 2022: فزکس کا نوبل انعام، کوانٹم سائنس دانوں نے کیا کارنامہ سرانجام دیا ہے؟
نوبل انعامات برائے 2022 کا اعلان کیا جارہا ہے۔۔۔اس برس فزکس کے میدان میں نوبل انعام ان تین سائنس دانوں کو دیا گیا ہے جنھوں نے کوانٹم فزکس میں شاندار تحقیق کی ہے۔۔۔کیا آپ کوانٹم فزکس، کوانٹم کمپوٹنگ، کوانٹم انٹیگلمنٹ اور کوانٹم ٹیلی پارٹیشن کے بارے میں جانتے ہیں۔۔۔؟ اگر آپ کا جواب نہیں میں ہے تو آپ ایک حیرت انگیز دنیا سے دُور ہیں۔۔۔ آئیے آپ کو بھی اس حیرت انگیز دنیا کی سیر کرواتے ہیں وہ بھی آسان زبان میں
2022 ء کا نوبل انعام برائے طبیعیات، کوانٹم مکینکس ((Quantum Mechanics کے میدان میں موجود چند پیچیدہ تصورات کی وضاحت کرنے پر تین سائنسدانوں کو دیا گیا ہے۔ نوبل کمیٹی برائے فزکس کے مطابق، یہ انعام فرانس کے ایلین اسپیکٹ (Alain Aspect)، امریکا کے جان ایف کلوزر (John F. Clauser) اور آسٹریا کے اینتون زیلنگر (Anton Zeilinger) کو مشترکہ طور پر دئیے جانے کا اعلان کیا گیا ہے کیونکہ انھوں نے "کوانٹم انفارمیشن ٹیکنالوجی" کے ایک نئے دور کی بنیاد رکھی ہے۔ ان تینوں سائنسدانوں نے کوانٹم میکانیات کے میدان میں، آزادانہ طور پر کام کرتے ہوئے، ایسے تجربات کیے جس سے “کوانٹم ہم آہنگی" (Quantum Entanglement) کی سائنسی تفہیم میں مدد ملی۔اس تحقیق کی بدولت کوانٹم کمپیوٹرز، کوانٹم نیٹ ورکس اور محفوظ کوانٹم انکرپٹڈ کمیونیکیشن کی ٹیکنالوجی کو پختہ کرنے میں مدد ملی ہے۔
چونکہ یہ تمام سائنسی تصورات بہت پیچیدہ ہیں، اس لیے قارئین کی سہولت کے لیے پہلے ہم "کوانٹم سائنس" اور "کوانٹم ہم آہنگی" کا ایک عمومی تعارف پیش کرتے ہیں تاکہ آپ کو یہ سمجھنے میں مدد مل سکے یہ مذکورہ دریافتیں کس قدر اہم ہیں۔
کوانٹم سائنس کیا ہے؟
کوانٹم سائنس بنیادی طورپرایٹم کے اندرکی دنیاہے۔ یہ ایٹم کے اندر موجود نہایت چھوٹے ذرات کے طرز عمل سے بحث کرتی ہے۔اس دنیامیں کلاسیکی طبیعیات مثلاََ نیوٹن کے قوانین حرکت اورقانون ثقل، میکسویل کی برقی مقناطیسی مساواتیں، حرحرکیات (تھرموڈائنامکس) کے قوانین اورہماری روزمرہ زندگی میں استعمال ہونے والے سائنسی اصول وضوابط بالکل لاگونہیں کئے جاسکتے۔ یہاں کے قوانین اور تصورات ہماری روزم مرہ زندگی کے قوانین سے بہت مختلف ہیں۔
کوانٹم کی دنیابہت پراسراراورناقابل یقین نتائج کی حامل ہے۔ یہ ایک ایسی دنیا ہے جس میں ذرات بیک وقت دوجگہوں پرموجودہوسکتے ہیں، جہاں ہرپیمائش غیریقینی ہے اورجہاں مشاہدہ، تجربے کے نتائج پراثراندازہوسکتاہے۔یہ انوکھےاورعجیب وغریب نظریات کوانٹم طبیعیات کے بارے میں ایک ایسا نقطہ نظر پیش کرتے ہیں جو ہماری عام قوت مشاہدہ کی پہنچ سے باہرہے۔ کوانٹم اینٹینگلمنٹ کا تصور بھی کوانٹم کی دنیا کے ایسے ہی انوکھے عجائبات میں سے ایک ہے۔
کوانٹم اینٹینگلمنٹ کیا ہے؟
کوانٹم اینٹینگلمنٹ (Quantum Entanglement)کا تصور پہلی بار 1935 میں پیش کیا گیا۔ اس تصور کے مطابق، کوانٹم ذرات کا ایک ایسا جوڑا (pair) ممکن ہے جنہیں ایک واحد موجی تفاعل (ویو فنکشن) کے ذریعے بیان کیا جا سکتا ہے، اوریہ دونوں ذرات ایک دوسرے سے دور ہوتے ہوئے بھی باہم مربوط (entangle) ہو سکتے ہیں۔ یہ دونوں ذرات کائنات میں مخالف سمتوں میں انتہائی دوری پر واقع ہو سکتے ہیں اور ان میں سے کسی ایک ذرے میں پیدا ہونے والی تبدیلی ، فوری طور پر دوسرے ذرے میں ظاہر ہو جائے گی۔ یعنی وہ دونوں ذرات عین ایک ہی لمحے میں ایک دوسرے سے رابطہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں گے۔ قریباََ نصف صدی بعد کئے گئے باریک بین تجربات سے ظاہر ہوا کہ یہ باہمی ہم آہنگی ، جسے” کوانٹم اینٹینگلمنٹ “کا نام دیا تھا، واقعی ممکن ہے۔ لیکن اصل مسئلہ اس طریقہ کار کو سمجھنا تھا جس کی وجہ سے ذرات کی انتہائی دوری پر بھی یہ "ہم آہنگی" ممکن ہو پاتی ہے۔
نوبل سائنسدانوں کی تحقیق
ان تینوں سائنسدانوں نے انفرادی طور پر، اینٹینگلڈ کوانٹم حالتوں کا استعمال کرتے ہوئے ایسے زمینی تجربات ترتیب دئیے، جہاں دونوں ذرات الگ ہونے پر بھی ایک اکائی کی طرح برتاؤ کرتے ہیں۔ ان کے نتائج نے کوانٹم معلومات کی محفوظ منتقلی کی نئی ٹیکنالوجی کا راستہ ہموار کر دیا۔
اس پیش رفت کا اہم عنصر یہ ہے کہ کس طرح کوانٹم میکانکس دو یا دو سے زیادہ ذرات کو آپس میں ہم آہنگ رہنے کی اجازت دیتی ہے جسے "اینٹینگلڈ حالت" کہا جاتا ہے۔ اس ہم آہنگ جوڑے میں سے ایک ذرے کے ساتھ ہونے والی تبدیلی اس بات کا تعین کرتی ہے کہ دوسرے ذرّے میں کیا تبدیلی واقع ہو گی، اگرچہ وہ دونوں ذرات بہت دور ہی کیوں نہ ہوں۔
اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے جان کلوزر اور ایلن اسپیکٹ نے ایسا سیٹ اپ تیار کیا جس سے ان ہم آہنگ ذرات کے درمیان معلومات کی منتقلی کے طریقہ کار کو سمجھا جا سکے۔ جبکہ اینتون زیلنگر نے طویل اور حساس تجربات کے ذریعے ان دو ہم آہنگ ذرات کے مابین کوانٹم حالتوں کی منتقلی کا کامیاب مظاہرہ کیا۔ یہ تصور "کوانٹم ٹیلی پورٹیشن " (Quantum Teleportation) کہلاتا ہے جو ایک ذرے کی کوانٹم حالت کو دوسرے ذرے تک منتقل کرنے کے قابل بناتا ہے۔ یاد رہے کہ یہی وہ تصور ہے جس میں کامیابی کی صورت میں، ہم مادی اشیا کو آن واحد میں ،ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل (ٹیلی پورٹ) کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔ ان تینوں ماہرین کی تحقیق کی بدولت مستقبل میں کوانٹم میکانیات سے متعلق کئی تصورات مثلاََ کوانٹم کمپیوٹنگ ، کوانٹم نیٹ ورکنگ اورمعلومات کی محفوظ ترین منتقلی کی ٹیکنالوجی کو پختہ بنانے کے ساتھ ساتھ " کوانٹم ٹیلی پورٹیشن "کے جادوئی تصور کو حقیقت کا روپ دینے میں بھی مدد ملے گی۔ سائنسدانوں کے مطابق، کوانٹم ٹیلی پورٹیشن اب تک کا وہ واحد معلومہ طریقہ ہے جس کے ذریعے کوانٹم اطلاعات کو طویل فاصلے تک قابل بھروسہ طریقے سے منتقل کیا جا سکتا ہے۔ اس کے بغیر کوانٹم کمپیوٹنگ کا تصور ناممکن ہو جاتا ہے۔
نوبل انعام کی رقم
اس سال نوبل انعام کی رقم 10 ملین سویڈش کرونر (Swedish kronor)ہے جو 9 لاکھ امریکی ڈالر (یعنی 20 کروڑ پاکستانی روپے) کے مساوی بنتی ہے۔ یہ رقم ان تینوں سائنسدانوں کے درمیان مساوی طور پر تقسیم کی جائے گی۔