نشتر ہسپتال ملتان کی چھت پر لاوارث لاشوں کا کیس: اصل کہانی کیا ہے؟

نشتر ہسپتال ملتان میں لاوارث لاشیں چھت پر کھلے آسمان پر پھینکنا۔۔۔مجرمانہ غفلت ہے یا سہولیات کی کمی۔۔۔ایسا کسی حکمت عملی کے تحت کیا جارہا تھا یا انتظامیہ بے خبر تھی؟ قصور وار کون ہے ہسپتال انتظامیہ یا پولیس حکام۔۔۔؟ کیا واقعی ہسپتال کی چھت پر 500 لاشیں پڑی تھیں؟ لاشوں کو سرد خانے کے بجائے کھلے آسمان تلے چھت پر کیوں رکھا گیا؟ کیا ہسپتال کا سرد خانہ بند پڑا تھا؟ حقیقت کیا ہے۔۔۔؟ ان سب سوالات کے جواب جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔

گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر ایک دلخراش ویڈیو وائرل ہوئی جس میں مبینہ طور پر نشتر ہسپتال کی چھت پر گلی سڑی لاشیں کھلے آسمان تلے پڑی دیکھی جاسکتی ہیں۔ ہسپتال جہاں زندگی کا تحفظ اور زندگی کی ضمانت دی جاتی ہے وہاں ایسا واقعہ غیر معموملی نہیں ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ لاشیں کن کی ہیں اور لاوارث کیوں پڑی ہیں۔۔۔پنجاب حکومت نے انکوائری کا حکم دے دیا۔۔۔۔لیکن اس مسئلے کی حقیقت کیا ہے۔۔۔آئیے میڈیا میں رپورٹ ہونے والی خبروں کا جائزہ لیتے ہیں۔

نشتر ہسپتال لاوارث لاشوں کے بارے میں ہولناک انکشاف

میڈیا پر شائع ہونی والی رپورٹس کے مطابق نشتر ہسپتال کے چھت پر بنے سردخانے اور چھت سے درجنوں لاوارث گلی سڑی لاشیں ملنے کا ہولناک انکشاف ہوا ہے۔ یہ واقعہ میڈیکل اخلاقیات اور لاوارث لاشوں سے متعلق قانون (ایس او پی) کی دھجیاں ادھیڑنے کی طرف اشارہ کررہا ہے۔ میڈیا پر رپورٹ ہونے پر پنجاب حکومت کی آنکھ بھی آخر کھلی اور اس نے لاشوں کی بے حرمتی کے سنگین واقعے کی تحقیق کروانے کا حکم دے دیا۔ وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی نے اس واقعے کا سخت نوٹس لیا اور ہیلتھ سیکرٹری کو اس سارے معاملے کی انکوائری کے احکامات جاری کیے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس غیر دارانہ رویے پر ملوث افراد کے خلاف سخت انظباطی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔

کیا واقعی چھت پر 500 لاشیں پڑی تھیں؟

یہ معاملہ اس وقت میڈیا پر سرخیوں کی زینت بنا جب وزیر اعلیٰ پنجاب کے مشیر طارق زمان گجر نے نشتر ہسپتال کا اچانک دورہ کیا۔ انھوں نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جب وہ ہسپتال کی چھت پر پہنچے تو وہاں تین تازہ اور 35 پرانی لاشیں کھلے آسمان تلے گل سڑ رہی تھیں۔ نشتر ہسپتال کے دورے کے دوران زبردستی سرد خانے کو کھلوایا گیا۔ ان کا کہنا ہے کہ سرد خانے میں 200 لاشیں موجود تھیں جن کپڑے سے نہیں ڈھانکا گیا تھا۔ تاہم تعداد کے حوالے سے حکومتی سطح پر کسی قسم کی تصدیق یا تردید تاحال سامنے نہیں آسکی۔

'یہ لاشیں تعلیمی مقاصد کے لیے تھیں' نشتر انتظامیہ کا موقف

سابق وفاقی وزیر مونس الٰہی نے اس معاملے کے بارے ابتدائی معلومات سے متعلق ایک ٹویٹ کیا ہے جس میں اس معاملے کے بارے میں اپ ڈیٹ دی گئی ہے۔ انھوں نے نشتر میڈیکل یونیورسٹی کے شعبہ جسمانی تشریع (اناٹومی) کے سربراہ (ایچ او ڈی) کے ردعمل کا ذکر کیا ہے۔ ایچ او ڈی کا کہنا ہے کہ لاوارث لاشیں پوسٹ مارٹم اور بوقت ضرورت ایم بی بی ایس طلبہ کے لیے تعلیمی مقاصد کے لیے  پولیس کی طرف حوالے کی گئی تھیں۔ انھوں نے چھت پر پھینکی گئی لاشوں کے بارے میں کہا یہ لاشیں تعلیمی مقاصد کے استعمال کرنے کے قابل نہ تھیں اور نہ ہی ان کو سرد خانے رکھنا ممکن تھا، اس لیے انھیں تحلیل(putrefaction) ہونے کے لیے رکھا گیا تاکہ ان کی ہڈیاں تعلیمی مقصد کے لیے استعمال کی جاسکیں۔

Moonis Elahi on Twitter: "An official inquiry has been launched. Pls read initial reply: Respected Sir, These are the unknown dead bodies handed over by the police to Nishtar Medical university Multan for post mortem and if required to be used for teaching purpose for MBBS students. https://t.co/NhGFYWsGYj / Twitter"

An official inquiry has been launched. Pls read initial reply: Respected Sir, These are the unknown dead bodies handed over by the police to Nishtar Medical university Multan for post mortem and if required to be used for teaching purpose for MBBS students. https://t.co/NhGFYWsGYj

 انھوں نے وضاحت کی کہ اس میں لاشوں کی بےحرمتی نہیں کی جاتی بلکہ لاشوں کی تحلیل یا تعلمی مقاصد کے لیے استعمال کے بعد اعضا اور ہڈیوں کو احترام کے ساتھ دفن کردیا جاتا ہے۔ یہ ہسپتال میں معمول کا عمل ہے۔

انسانی لاش کی تحلیل یا گلے سڑنے کے عمل (putrefaction) سے کیا مراد ہے؟

نامیاتی مادوں (حیوانات ونباتات) قدرتی طور پر تحلیل ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اصطلاحی اعتبار سے حیوانی و نباتی مادوں یعنی جانوروں اور پودوں کی بوسیدگی اور گلنے سڑنے کا عمل putrefaction کہلاتا ہے۔ اس عمل میں انسانی لاش کو گوشت پوست آہستہ آہستہ تحلیل (ڈی گریڈ) ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ جس کی وجہ سے فضا میں سڑاند اور تعفن پھیلنا شروع ہوجاتا ہے۔ آخر کار سارا گوشت جھڑ جاتا ہے اور ہڈیوں کا ڈھانچہ باقی بچتا ہے۔

 

سردخانے کئی برسوں سے "سرد" ہی نہیں

جیو نیوز کو ہسپتال کے ذرائع نے بتایا کہ ہسپتال کے سرد خانے فریزر کئی برسوں سے چالو حالت میں نہیں ہیں بلکہ پانچ میں سے صرف ایک فریزر چالو حالت میں ہے۔ یاد رہے کہ نشتر ہسپتال کے سرد خانے میں چالیس لاشیں رکھنے کی سہولت ہے۔ ذرائع کے مطابق صرف ایک فریزر ہونے کی وجہ سے صرف سات آٹھ لاشیں رکھی جاسکتی ہیں۔ مزید براں سرد خانے کے اوپر بنے دو کمرے لاوارث لاشوں سے بھرے پڑے ہیں۔ لاوارث لاشوں کو ہسپتال میں صرف چار مہینوں تک رکھا جاتا ہے اس کے بعد طلبہ کے تجربات کے لیے لیبارٹری میں بھیج دی جاتی ہیں یا انھیں دفن کردیا جاتا ہے۔

 

لاوارث لاشوں کا ذمہ دار کون ہوتا ہے؟

سنیئر کرائم رپورٹر فہیم صدیقی کے مطابق لاوارث لاشوں کی بنیادی ذمہ اُس ہسپتال کے علاقے کی پولیس کی ہوتی ہے۔ جب ہسپتال میں لاش لائی جاتی ہے یا وہاں کسی کی موت ہوجاتی ہے کہ حکومتی نمائندہ اسے قریبی تھانے میں رپورٹ کرتا ہے۔ لاوارث لاشوں کی تدفین و تجہیز پولیس کی ذمہ داری ہے۔ پولیس زیر دفعہ 174 کے تحت اس لاش کو محفوظ کرنے اور دفنانے کے انتظامات کرتی ہے۔ نشتر انتطامیہ کا اس بارے میں کہنا ہے کہ اگر کوئی لاش لیبارٹری کے استعمال ہوتی تب بھی پولیس کو اطلاع دی جاتی ہے۔ اگر لاش کے وارثین نہیں آتے تو اس لاش کو باقاعدہ تجہیز کے بعد ایدھی قبرستان میں دفن کردیا جاتا ہے یا پولیس قریبی قبرستان میں دفن کردیتی ہے۔

متعلقہ عنوانات