چراغِ نیم شب
السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ وبرکٰتُہُ
احباب، آج اردو ادب کے عظیم نقاد ، ادیب ، شاعر ، ڈرامہ نگار اور کالم نویس سلیم احمد مرحوم کا یوم وفات ہے۔
مخصوص لب و لہجہ کے حامل سلیم احمد مرحوم کو اردو ادب میں ایک مخصوص مقام حاصل ہے، اور ادبِ اسلامی یا دائیں بازو سے منسلک ادب کی تشکیل میں حسن عسکری، سلیم احمد اور نعیم صدیقی کا نام نمایاں ترین ہے۔ ان کے مقام و مرتبہ کا اندازہ اسی بات سے لگا لیجیے کہ اردو ادب کے تین سب سے بڑے نقاد میں ان کا شما رہوتا ہے۔ جبکہ ن م راشد نے انہیں واحد مکمل نقاد قرار دیا۔ اس سب کے علاوہ آپ کی تہزیب ،، تہزیبی تصورات ،اقدار اور اصولِ تہزیب پر بھی خاصی گہری نظر تھی۔ سلیم احمد کی معروف تصانیف میں "چراغِ نیم شب، غالب کون؟ ، حسن عسکری آدمی یا انسان، نئی نظم اور پورا آدمی، ادھوری جدیدیت، ادبی اقدار، اقبال :ایک شاعر "، وغیرہ ہیں۔
یکم ستمبر 1983 کو وفات پانے والے پروفیسر سلیم احمد کی تدفین کراچی ، پاپوش نگر میں ہوئی۔
ان کے شعری مجموعہ ، "چراغِ نیم شب" سے ایک غزل ،
دِل حُسن کو دان دے رہا ہوں
گاہک کو دکان دے رہا ہوں
شاید کوئی بندهٔ خدا آئے
صحرا میں اذان دے رہا ہوں
ہر کُہنہ یقیں کو از سرِ نو
اک تازہ گمان دے رہا ہوں
گونگی ہے ازل سے جو حقیقت
مَیں اُس کو زبان دے رہا ہوں
مَیں غم کو بسا رہا ہوں دل میں
بے گھر کو مکان دے رہا ہوں
بے جادہ و راہ ہے جو منزل
مَیں اُس کا نشان دے رہا ہوں
جو فصل ابھی کٹی نہیں ہے
مَیں اُس کا لگان دے رہا ہوں
حاصِل کا حساب ہو رہے گا
فی الحال تو جان دے رہا ہوں
رکھوں جو لحِاظ مصلحت کا
کیا کوئی بیان دے رہا ہوں؟