لقمان حکیم کون تھے؟ جن کا ذکر قرآن میں بھی کیا گیا۔(حصہ دوم)

جب اسلام کی دعوت مکے میں پھیلنے لگی تو قریش نے اس کے راستے میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا۔ اس سورت میں اللہ رب العالمین نے لہوالحدیث اور اس کے نتیجے میں گمراہ کن تصورات، عقائد اور اعمال کی شدید مذمت کی ہے۔ اس کے مقابلے میں لقمان کی حکمت کو جو عربوں کے ہاں اجنبی نہیں تھی بلکہ ہر شخص اس سے واقف اور مانوس تھا، پیش کیا ہے کہ اس سے سبق وعبرت حاصل کرو۔ لہو الحدیث کی تشریح میں سیدمودودی تحریر فرماتے ہیں: 
    ’’ابن ہشام نے محمدبن اسحاق کی روایت نقل کی ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کفارِ مکہ کی ساری کوششوں کے باوجود پھیلتی چلی جارہی تھی تو نضر بن حارث نے قریش کے لوگوں سے کہا کہ جس طرح تم اس شخص کا مقابلہ کررہے ہو اس سے کام نہ چلے گا۔ یہ شخص تمھارے درمیان بچپن سے ادھیڑ عمر کو پہنچا ہے۔ آج تک وہ اپنے اخلاق میں تمھارا سب سے بہتر آدمی تھا۔ سب سے زیادہ سچا اور سب سے بڑھ کر ایمان دار تھا۔ اب تم کہتے ہو کہ وہ کاہن ہے، ساحر، ہے، شاعر ہے، مجنون ہے۔ آخر ان باتوں کو کون باور کرے گا۔ کیا لوگ ساحروں کو نہیں جانتے کہ وہ کس قسم کی جھاڑ پھونک کرتے ہیں؟ کیا لوگوں کو معلوم نہیں کہ کاہن کس قسم کی باتیں بنایا کرتے ہیں؟ کیا لوگ شعروشاعری سے ناواقف ہیں؟ کیا لوگوں کو جنون کی کیفیات کا علم نہیں ہے؟ ان الزامات میں سے آخر کونسا الزام محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر چسپاں ہوتا ہے کہ اس کا یقین دلا کر تم عوام کو اس کی طرف توجہ کرنے سے روک سکو گے۔ ٹھیرو، اس کا علاج میں کرتا ہوں۔ اس کے بعد وہ مکہ سے عراق گیا اور وہاں سے شاہانِ عجم کے قصے اور رستم واسفندیار کی داستانیں لا کر اس نے قصہ گوئی کی محفلیں برپا کرنی شروع کردیں تاکہ لوگوں کی توجہ قرآن سے ہٹے اور وہ ان کہانیوں میں کھوجائیں۔ (سیرۃ ابن ہشام، ج۱، ص۳۲۰-۳۲۱، بحوالہ تفہیم القرآن، ج۴،۸-۹)
اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس لہو الحدیث کی لغویت کے مقابلے میں سورۂ لقمان کی آٹھ آیات میں (آیت ۱۲ تا۱۹) حضرت لقمان کی شخصیت اور تعلیمات کا نچوڑ پیش کیا گیا ہے۔ ارشادِ ربانی ہے:
وَلَقَدْ اٰتَیْنَا لُقْمَانَ الْحِکْمَۃَ أَنِ اشْکُرْ لِلّٰہِ وَمَنْ یَّشْکُرْ فَإِنَّمَا یَشْکُرُ لِنَفْسِہٖ وَمَنْ کَفَرَ فَإِنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ حَمِیْد$
ہم نے لقمان کو حکمت عطا کی تھی کہ اللہ کا شکرگزار ہو۔ جو کوئی شکر کرے اس کا شکر اس کے اپنے ہی لیے مفید ہے اور جو کفر کرے تو حقیقت میں اللہ بے نیاز اور آپ سے آپ محمود ہے۔
یعنی حضرت لقمان کو اللہ رب العالمین نے بے مثال دانائی عطا فرمائی تھی۔ ان کی دانائی عرب معاشرے میں زبان زد عام تھی۔ ان کی طرف منسوب کچھ کلام بھی عربوں میں متداول تھا، جسے صحیفۂ لقمان یا مجلۂ لقمان کہا جاتا تھا۔ اللہ نے انھیں اپنی نعمتوں پر شکر گزار بندہ بننے کی تلقین فرمائی اور وہ ایک مثالی شاکر وصابر اور عابد وزاہد شخصیت کے طور پر لوگوں کے لیے قابل تقلید نمونہ قرار پائے۔ اللہ کی نعمتوں پر شکرگزاری بندے کا حسن بھی ہے اور اس کے لیے لازوال نفع بخش صفت بھی۔ اگر اللہ کی نعمتوں پر کوئی شخص کفرانِ نعمت کا مرتکب ہو تو یہ اس کی اپنی بدقسمتی ہے۔ خالق کائنات اور داتائے حقیقی کی ذاتِ عالی کو اس سے کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔ اللہ نے ہم میں سے ہر ایک کو بے شمار نعمتیں عطا فرمائی ہیں۔ جسم وجان اور اعضا وجوارح بذاتِ خود عظیم نعمتیں ہیں۔ اگر کسی چیز کی محرومی بھی ہو تو حاصل وموجود نعمتوں پر نظر مرتکزرکھنی چاہیے۔ 
اولاد بہت بڑی نعمت ہے، مگر اس کے ساتھ اس کی مسئولیت بھی بہت بڑی ہے۔ اولاد کی تربیت ماں کی گود سے شروع ہو جاتی ہے۔ والدین اپنی اولاد کی تربیت کیسے کریں، یہ اہم سوال ہے۔ حضرت لقمان کی نصیحت کے تمام نکات بہت اہم اور جامع ہیں اور ان کا انداز بھی حکمت وتاثیر سے مالامال ہے۔ اپنے بیٹے کو نرمی اور محبت سے وہ ’’یَابُنَیَّ‘‘ یعنی اے میرے پیارے بیٹے کہہ کر مخاطب کرتے ہیں۔ مربی کا رویہ ہمیشہ محبت کا ہونا چاہیے۔ محبت کی شیرینی دلوں کو فتح کرتی ہے۔ اسی لیے محبت کو فاتح عالم کہا جاتا ہے۔ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی نرم دلی پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ آپؐ پر اس کی بہت بڑی رحمت ہے کہ آپ نرم دل ہیں۔ اگر آپ نرم دل نہ ہوتے تو لوگ آپ کے گرد یوں پروانہ وار جمع نہ ہوتے۔ 
فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنْتَ لَہُمْ وَلَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ فَاعْفُ عَنْہُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَہُمْ وَشَاوِرْہُمْ فِی الْأَمْرِ۔ (آل عمران۳:۱۵۹)
(اے پیغمبرؐ) یہ اللہ کی بڑی رحمت ہے کہ تم ان لوگوں کے لیے بہت نرم مزاج واقع ہوئے ہو۔ ورنہ اگر کہیں تم تُند خو اور سنگ دل ہوتے تو یہ سب تمہارے گردوپیش سے چھٹ جاتے۔ ان کے قصور معاف کردو، ان کے حق میں دعائے مغفرت کرو اور دین کے کام میں ان کو بھی شریک مشورہ رکھو۔ 
حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کی تربیت کے لیے جو نصاب اس کے سامنے پیش فرمایا اس کے ہرنکتے کی تلقین سے پہلے اپنے بیٹے کو شفقت اورپیار سے مخاطب کیا۔ عربوں کے ہاں اپنے بچوں سے یوں محبت کرنے کا رویہ متروک ہوچکا تھا حالانکہ ان کے جد امجد حضرت ابراہیمؑ بھی اپنے بیٹے سیدنا اسماعیلؑ کو قرآن پاک کے الفاظ میں ’’یبنیّ‘‘ (اے میرے پیارے بیٹے)کہہ کر ہی خطاب فرماتے ہیں۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اخلاق کو اپنے عمل سے پھر زندہ فرمایا۔ والدین، اساتذہ، مربیّین اورقائدین کوہمیشہ یہ پیش نظررکھنا چاہیے کہ پیار اور محبت سے دی گئی ہدایات جلد دل میںجگہ پکڑتی اور برگ و بار لاتی ہیں۔ والدین اور اولاد کے درمیان دوستانہ تعلق تربیت وتزکیہ کا کام بہت آسان کردیتا ہے۔ حضرت لقمان کی تعلیمات انتہائی جامع اور کامل ہیں جن میں تمام تربیتی پہلو، عقیدہ، عبادت، معاملات، معاشرت اورمعیشت سب کو سمو دیا گیا ہے اور ان کا اندازِخطاب بھی بہت مؤثر اور بلیغ ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ان امور کو ابتدائی عمر میں بچوں کے ذہن نشین کرا دیا جائے تو اللہ کی رحمت سے وہ اچھے انسان اور باعمل مسلمان بن کر زندگی گزارنے کے قابل ہوسکیں گے۔
 

لقمان حکیم کون تھے؟ جن کا ذکر قرآن میں بھی کیا گیا۔(حصہ اول)

متعلقہ عنوانات