جیمز ویب ٹیلی سکوپ کائنات کی پہلی تصویر کب بھیجے گی؟
اللہ تعالیٰ کی تخلیق کردہ اس رنگارنگ اور حیرت انگیز دنیا میں اپنی آمد سے اب تک انسان اس کے سحر میں گرفتار ہے اور حیرت و استعجاب سے اس کی وسعتوں کو کھوجنے کی مستقل جستجو میں مصروف بھی۔ زمین کے اندر چھپی معدنیات اور خزانوں کی تلاش ہو، سمندروں کی گہرائی میں رہتی بستی مخلوق کا مشاہدہ ہو یا پھر سب سے بڑھ کر سر اٹھاتے ہی آسمان پر لامحدود پھیلا آسمان، اس پر موجود ستاروں کے جھرمٹ اور ان میں موجود نئی دنیاؤں کی تلاش ہمیشہ سے حضرت انسان کے لیے ایک دلچسپ اور خوب صورت سرگرمی رہی ہے۔ چنانچہ یہ حقیقت ہے کہ غاروں میں رہتے ہوئے سیاروں اور ستاروں کے ابتدائی مشاہدے سے لے کر اب تک انسان اللہ تعالیٰ کی اس بنائی کائنات کی ہر لمحہ بڑھتی اور پھیلتی وسعتوں کی تلاش کا اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہے۔
اسی مشاہدۂ کائنات کو بہتر سے بہترین بنانے کے لیے اب سے چند ماہ پیشتر اب تک کی سب سے بڑی اور جدید دوربین خلا میں ایسی پوزیشن تک بھیجنے کی کوشش کی گئی تھی جہاں سے وہ کائنات کے اب تک سربستہ رازوں سے پردہ اٹھا سکے ۔ ابھی خبر آئی ہے کہ جیمز ویب دوربین مشاہدہ کرنے کی پوزیشن میں پہنچ چکی ہے۔ یعنی یہ اس مقام تک پہنچ گئی ہے جہاں یہ کائنات کا مشاہدہ کرے گی۔اس مقام کو لگرینج پوائنٹ 2 کا نام دیا گیا ہے اور یہ زمین سے ایک ملین میل (1.5 ملین کلومیٹر) یا پندرہ لاکھ کلومیٹر دور ہے ۔
جیمز ویب دوربین کو اس مقام کے گرد ایک مدار میں لے جایا گیا ہے جہاں اب یہ خود کار کشش کے نظام کے تحت گردش کرے گی جبکہ زمین سے خلا میں اس دوربین کو اس مقام تک پہنچانے والے کنٹرولرز اب واپسی کے سفر پر روانہ ہوچکے ہیں۔ زمین پر واپس پہنچ کر اب یہ کنٹرولرز آنے والے مہینوں کو دوربین کو مشاہدے کے لیے تیار کرنے کے لیے ٹیوننگ میں گزاریں گے۔
جیمز دوربین کو محض ایک دوربین نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ یوں سمجھیے کہ یہ ایک جدید ترین رصد گاہ یا observatory ہے جس میں انتہائی حساس اور جدید ترین آلات نصب ہیں۔ خاص طور پر، اس کا 6.5m چوڑا سیگمنٹڈ پرائمری ریفلیکٹر۔ اس کے ساتھ ساتھ 18 بڑے آئینے اور عدسے جن کی مدد سے کسی بھی تصویر کومرتکز اور ہزاروں گنا بڑا کرکے واضح دیکھا جاسکتا ہے۔
جیمز ویب کے بڑے اہداف کائنات میں چمکنے والے قریب ترین ستاروں کی تصویریں لینا اور دور دراز ستاروں اورسیاروں کی چھان بین کرنا ہےلیکن اس کے ساتھ ساتھ ماہرین فلکیات ایک دلچسپ مشن بھی اس کے اہداف میں شامل کررہے ہیں۔ وہ یہ ہے کہ ان ستاروں اور سیاروں کا اس نقطہ نظر سے جائزہ کہ آیا وہ مستقبل میں انسان کے لیے قابل رہائش ہیں یا نہیں۔ گویا انسان اس کائنات میں اپنے نئے ٹھکانے کی تلاش میں ہے۔
اپنے مطلوبہ مقام تک پہنچنے کے بعد ایک بڑی سن شیلڈ کے پیچھے چھپے ہوئے، ویب کے آپٹکس اور آلات جلد ہی تقریباً -230C تک ٹھنڈے ہو جائیں گے ۔ جب ایسا ہوتا ہے تو، کنٹرولرز ویب کے انفراریڈ کیمرہ ( NIRCam ) کو آن کریں گے تاکہ بڑے آئینے کو سیدھ میں کرنے کے عمل کو شروع کرنے کے لیے ٹیسٹ اسٹار کی تصویر لے سکیں۔
تصویر لینے کے لیے رصدگاہ میں موجود 18 آئینوں سے آنے والی روشنی یا دھبوں کو اکٹھا کر کے ایک ایسا ستارہ بنایا جا سکے جو خراب نہ ہو اور عام کاموں کے لیے اچھا ہو۔یہ ایک طویل عمل ہے اوراس میں تین ماہ لگ سکتے ہیں۔ گویا جیمز ویب سے اولین تصاویر کے حصول کے لیے ابھی سائنس دانوں کو مزید انتظار کرنا ہوگا اور ان کے ساتھ ہمیں بھی ۔