اک شگفتہ مزاج تھا، کدھر گیا؟

1951ء میں کوئٹہ میں پیدا ہوئے۔ 22 سال کی عمر میں 1973ء میں مفتی محمود کے قافلے JUI کے رکن بنے، دو بار قومی اسمبلی اور ایک بار سینٹ کے ممبر منتخب ہوئے۔ حاضر جواب شگفتہ مزاج مولوی بذاتِ خود بہت بڑی خبر ہوا کرتا ہے کیونکہ سیاسی علماء تو عموماً ہارڈ لائنر ہوا کرتے ہیں۔ اسی لئے حمداللہ جیسے ترجمان بھی پٹری سے اتر جاتے ہیں۔ ایسے میں پارلیمانی جمہوریت کا یہ خوش مزاج کارکن تناؤ کے ماحول کو چند جملوں سے زعفران بنا دیتا ہے۔

گزشتہ آٹھ نو ماہ سے سیاسی افق پر کالے بادل چھائے ہوئے ہیں۔ مرحوم نوابزادہ نصراللہ خان یاد آتے ہیں جو ضیاءالحق کی سخت ترین ناقد ہونے کے باوجود اکثر کہا کرتے تھے "طبع نازک پر گراں نہ گزرے تو عرض کروں" ۔۔۔۔ ان پر سلطان راہی مرحوم کی پنجابی فلموں کا صفر اثر تھا۔ ایک مرتبہ معروف بھارتی شاعر ڈاکٹر کلیم عاجز (جنہوں نے سقوط مشرقی پاکستان کے بعد ایک مشاعرے میں مہمان خصوصی اندرا گاندھی کی موجودگی میں ایسی غزل سنائی کہ اندرا گاندھی ناراض ہو کر لال قلعہ سے چلی گئی تھیں) کی غزل کا شعر ضیاء الحق کو یوں پیش کیا،

 

دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ

تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو

 

خیر بات ہو رہی تھی کوئٹہ کے حافظ حسین احمد کی ۔۔۔ ان کی شگفتہ مزاجیوں کی ایک پوسٹ کسی دوست نے واٹس ایپ کی ہے، مزہ آ گیا ۔۔۔ حبس کے موسم میں جیسے بادِ نسیم

 

سینٹ کا اجلاس ہو رہا تھا صدارت بلوچستان سے تعلق رکھنے والی نورجہان پانیزئی کررھی تھیں۔ (یہ ان دنوں کی بات ھے جب حکومت کی جانب سے پہلی بار بجلی کے بلوں پر سرچارج کا فیصلہ کیا گیا تھا اور اس پر اپوزیشن اور عوام کی جانب سے کافی سخت ردعمل آیاتھا ) حافظ حسین احمد اٹھے اور کہا وزیر خزانہ جناب سرچارج عزیز صاحب بتانا پسند فرمائیں گے ؟ابھی سوال نامکمل تھا کہ سرتاج عزیز اٹھے اور کہا ''جی !انہیں سمجھائیں، میرا نام درست لیں ۔''

حافظ صاحب سے درست نام لینے کو کہا گیا تو حافظ صاحب کہنے لگے:

''

آج اخبار میں سرچار ج کا تذکرہ بہت پڑھا، ممکن ہے، وہی اٹک گیا ہو۔مگر وزیر صاحب اپنا درست نام بتادیں تاکہ انہیں اسی نام سے پکارا جائے ''

سرتاج عزیز اپنے سرخ چہرے کے ساتھ انتہائی غصے میں اٹھے اور کہنے لگے:'' میرا نام سرتاج ہے سرتاج!! !!!

یہ کہنے کی دیر تھی کہ حافظ حسین احمد نے کہا :

محترمہ چیئرپرسن صاحبہ! آپ انہیں سرتاج (شوہر مراد ہے)کہہ سکتی ہیں؟

ڈاکٹرنورجہاں پانیزی کے ہونٹوں پر چند لمحے قفل رہا …پھر بولیں:'' نہیں میں نہیں کہہ سکتی''

حافظ حسین احمد نے کھڑے کھڑے کہا:

جب آپ ان کا درست نام لینے سے گریز کرتی ہیں اور درست نام نہیں لے سکتیں تو ہم کیسے لے سکتے ہیں؟

 

٭ …وسیم سجاد سینٹ کے اجلاس کی صدارت کررھے تھے۔ اقبال حیدر(مرحوم) کی یہ عادت تھی کہ وہ اجلاس سے اٹھ کرھال کے ساتھ والے کمرے میں بیٹھ کر سگریٹ پیتے تھے ۔چیئرمین صاحب نے پوچھا :…اقبال حیدر کہاں ہیں؟

حافظ حسین احمد نے کہا'' پینے گئے ہیں''

پورے ہال میں قہقہے برسنا شروع ہوئے تو اقبال حیدر فوراً داخل ہوئے ،کہنے لگے :''جناب چیئرمین !انہو ں نے مجھ پر بہتان لگایا ہے''

اقبال حیدر غصے سے لال پیلے ہو چکے تھے ،حافظ حسین احمد اٹھے اور کہنے لگے:'' جناب چیئرمین! آپ ان سے پوچھیں یہ سگریٹ پی کر نہیں آئے ؟میں نے بھی تو یہی کہا تھا کہ پینے گئے ہیں''۔

 

٭ …ڈاکٹر اشرف عباسی قومی اسمبلی کی ڈپٹی سپیکر تھیں، سپیکر معراج خالد بیرونی دورے پر چلے گئے۔ اب قائم مقام سپیکر کی حیثیت سے اجلاس کی صدارت اشرف عباسی ہی کو کرنا تھی ۔مسئلہ صرف حافظ حسین احمد کا تھا کہ کسی طرح انہیں کنٹرول کیا جائے۔ ڈاکٹر اشرف عباسی نے سوچ وبچار کے بعد فیصلہ کیا کہ حافظ حسین احمد سے میٹنگ کرلی جائے ۔وہ یہ سوچ کر رات ساڑھے دس بجے ایم این اے ہاسٹل چلی آئیں ۔کمرے میں کراچی کے ایک عالم دین سے کہنے لگیں کہ ''حافظ صاحب بہت تنگ کرتے ہیں، انہیں سمجھائیں، اجلاس کو پر سکون رھنے دیا کریں۔ تیسرے فریق کی موجودگی میں حافظ حسین احمد اور ڈاکٹر اشرف عباسی کا معاہدہ ہوگیا کہ حافظ حسین احمد تنگ نہیں کریں گے ۔اگلے دن اجلاس شروع ہوا تو حافظ حسین احمد اٹھے اور بولنا چاہا تو ڈاکٹر اشرف عباسی نے موصوف کو غصے سے کہا بیٹھ جاؤ۔ چند منٹوں کے توقف کے بعد وہ پھر اٹھے تو ڈاکٹر صاحبہ نے اپنا پہلے والا جملہ دھرادیا۔ ایک مرتبہ پھر ایسا ہوا ۔جب چوتھی مرتبہ حافظ حسین احمد اٹھے تو ڈاکٹر اشرف عباسی نے جھاڑ پلادی ۔حافظ صاحب نے کہا:

'' میں رات والے معاھدے کو توڑنے کا اعلان کرتا ہوں۔''

یہ کہنے کی دیر تھی کہ ڈاکٹر اشرف عباسی نے سپیکر کی کرسی سے مخاطب ہوتے ہوئے کہنا شروع کردیا :نہیں، نہیں حافظ صاحب! معاہدہ برقرار رہے گا۔

تمام ممبران رات والے معاہدے پر حیرت زدہ تھے ،یہ معاہدہ ممبران کیلئے معمہ بن کے رہ گیا تھا

 

٭… ملک معراج خالد قومی اسمبلی کے سپیکر تھے، اعتزاز احسن وزیر پارلیمانی امور تھے، انہیں جواب دینا تھے۔ مگر اعتزاز احسن نے ایک دن آتے ہی سپیکر سے کہا کہ: آج مجھے جلدی ہے، حافظ حسین احمد صاحب سے کہیں کہ وہ سوال پوچھ لیں۔

حافظ حسین احمد نے کہا کہ: وزیر صاحب بتانا پسند کریں گے کہ کس بات کی جلدی ہے؟

اعتزازاحسن: محترمہ بے نظیر بھٹو (وزیر اعظم ) مری جارہی ہیں۔

حافظ حسین احمد:کس پر؟

بس یہ کہنے کی دیر تھی کہ شور شرابہ شروع ہوگیا ۔حکومتی پارٹی کے اراکین کہنے لگے کہ یہ جملے قابل اعتراض ہیں، ہم واک آؤٹ کریں گے ،نہیں تو حافظ صاحب اپنے الفاظ واپس لیں۔

حافظ حسین احمد: کونسے الفاظ قابل اعتراض ہیں، میں نے بڑی لمبی تقریر کی ہے ،مجھے کیا پتہ کہ کونسے قابل اعتراض بن گئے ہیں۔

معراج خالد : وہ جو قابل اعتراض ہیں ۔

حافظ حسین احمد:مجھے کیسے پتہ چلے گا؟

اعتزاز احسن :وہ جو انہوں نے کہا کہ کس پر…؟

حافظ حسین احمد:جناب سپیکر !میرا کہنے کا مطلب یہ تھا کہ اگر محترمہ ہیلی کاپٹر پر جارہی ہیں تو پھر تویہ جائیں اور اگر وہ بائی روڈ جارہی ہیں تو وزیر صاحب بعد میں اپنی گاڑی پر جاسکتے ہیں۔ میں نے یہ پوچھا کہ :وہ کس پر مری جارہی ہیں؟ گاڑی پر یا ہیلی کاپٹر پر؟''

 

پیپلز پارٹی کے اراکین پھر کھڑے ہوگئے کہنے لگے:'' نہیں! حافظ صاحب کی نیت ٹھیک نہیں ہے۔'' بڑھ چڑھ کر بولنے والوں میں جہانگیر بدر بھی تھے۔

 

حافظ حسین احمد:جناب سپیکر !مجھے اپنی نیت کا پتہ ہے ،انہیں میری نیت کا کس طرح معلوم ہوا ۔

 

(میاں محمد نواز شریف کے کوئٹہ جلسہ میں براہ راست اداروں کے خلاف بات کرنے پر اجتجاج کرنے کی وجہ سے مولانا فضل الرحمٰن نے ان کو پارٹی سے نکال دیا تھا۔ حافظ صاحب کا کہنا تھا کہ "نہ میں پھسلا ہوں، نہ میری زبان پھسلی ہے، وہ اور ہیں جن کے قدم دولت کی چمک دیکھ کر پھسل گئے ہیں۔ نواز شریف کا بیانیہ ان کا ذاتی خیال ہے نہ کہ پی ڈی ایم یا جے یو آئی کا۔۔۔۔۔