اردو شاعری کی طُرفہ بدقسمتی
اردو ادب اور شاعری ایک قحط الرجال کے عہد اور سانحہ سے گزر رہا ہے، جس کی بظاہر دو بڑی وجوہات ہماری سمجھ میں آتی ہیں۔
ایک پاپولر لٹریچر کے نام پر لغویات کا عام ہونا اور دوسرا اردو ادب میں سچے نقادوں(تنقید نگار) کا قحط۔ فی زمانہ اردو شاعری پر اماوس کی جو رات چھائی ہوئی ہے، اسکی کوئی اور وجہ سوائے تنقید نگاری کے فقدان کے ہمیں سمجھ نہیں آتی۔
یاسرہ رضوی کی اصطلاح "غزم" اور زریون کی "کری" کو تو چھوڑیے، تہذیب حافی، جن کو مشاعروں میں بطور ایک اہم شاعر بلایا جاتا ہے کا بہت سا کلام انتہائی سطحی، اور غیر معیاری ہے۔ اکثر نو واردان ادب کا خیال، اوزان و قوافی و ردیف کا لحاظ، حافی اور زریون سے بہتر دیکھا گیا ہے۔ نمونہ کے طور پر حافی کے یہ اشعار دیکھیے ۔
اس بدن کا ارومہ ہی تھا جو محبت بھری اشتہا بن گیا
جب وہ میرے گلے سے لگا میز پر ناشتہ لگ رہا تھا
میں نے جس سے محبت کا سوچا وہ خود بھی یہی چاہتا تھا
عشق میں میرے تُکے نہیں لگ رہے تھے تو کیا لگ رہا تھا
تہذیب حافی
بدن کے اروما کا تعلق، ناشتے کی میز سے کیا ہے؟؟؟ شاعری میں "عشق" ایک فلسفہ، ایک تحریک، ایک روایت اور ایک مکمل کیفیت رہی ہے. حافی صاحب نے عشق کو اتنا گرایا کہ اسے ایک تکا ہی بنا دیا ہے۔
پھر ایک شعر میں فرماتے ہیں،
تجھے پتہ ہے تیرے بعد کیا ہوا ؟؟
درخت بجھ گئے چراغ کٹ گئے
جھجھک رہے تھے روشنی میں اور پھر
دیے کو پھونک مار کے لپٹ گئے
عامیانہ و سوقیانہ پن کی ایک مثال کے علاوہ یہ کیا ہے؟؟؟؟