شہر پناہ

اے ہم سخن،

خاموش رِہ،

آہٹ نہ کر،

یہ رات ہے،

یا رات کا  اِک عکس ہے،

 

ہے رات کا دستور یہ،

مقصود یہ ، منشور یہ،

ہو ہُو کا عالم بس یہاں،

اِس ہُو کے عالم میں مِیاں،

بس جام کی آواز ہو،

یا دِل نَشیں ہمراز ہو،

پائل ہو ، مَے ہو ، ساز ہو،

از بس ، کہ کیونکر ہو بیاں!

یہ رنگ و روغن کا سماں،

تاروں کا جیسے کارواں،

حرکت میں ساقی ہے کہاں!

بس جام مِحوِ رقص ہے۔

 

سو ہم سخن،

خاموش رِہ،

آہٹ نہ کر،

یہ رات ہے،

یا رات کا اِک عکس ہے۔

 

اس رات کی ہر بات میں،

ایسے کٹِھن حالات میں،

جب سانس پر پِہرے لگیں،

حاکم جہاں بِہرے لگیں،

منصِف جہاں خنجر رہے،

 کیوں سوچ نہ بنجر رہے،

گولی جہاں قانون ہو،

ہر لب کُشا  مدفون ہو،

ایسی اندھیری رات میں،

اس مرکزِ ظُلمات میں،

اِک شخص ایسا بھی مِلے،

جو سچ کے رستے پہ چلے،

جو حق کرے ایسے بیاں،

ہو فجر کی جیسے اذاں،

ہو رعد کی جیسے کڑَک،

ہو برق کی جیسے چمَک،

پھر یار کے کوچے سے

لے کر

ہر سُتونِ دار تک،

ہر مدرسہ و میکدہ،

ہر کوچۂ و بازار تک،

جس راہ تھا سرمد چلا،

تھا فیض نے جیسے کہا،

کچھ روشنی کا ذِکر ہو،

خورشید کی بھی فِکر ہو،

اِک قافلہ یونہی چلے،

تاریک شب ایسے ڈھلے،

ایسا کوئی تو شخص ہو،

لیکن کہاں وہ شخص ہے!

پس ہم سخن!

خاموش رِہ،

آہٹ نہ کر،

یہ رات ہے،

یا رات کا اِک عکس ہے۔۔۔۔۔

متعلقہ عنوانات