کہانی: دولت پر غرور کی سزا کیسے ملتی ہے؟
صابربیٹے !سکول کےلان سے مجھے یہ پین ملا ہے ، کہیں آپ کا تو نہیں ہے؟ مالی بابانے نہم کلا س کے کمرے میں داخل ہو تے ہو ئے پو چھا۔
مالی بابا یہ پین میرا ہے۔ اس بھکاری کے پاس ایسا خوبصو رت اورقیمتی پین کہا ں سے آئے گا۔
پرویز نےحقارت سے صابر کی طرف اشارہ کرتے ہو ئے کہا۔
نہیں بیٹے !ایسےنہیں کہتے، صابربھی تمہار ا ہم جماعت ہے اور ہم جماعت تو بھائیوں کی طرح ہو تے ہیں۔ مالی بابا نے اسےسمجھا تے ہو ئے کہا۔
نہیں مجھے ایسے بھا ئی کی ضرورت نہیں ہے جس کے پاس سکو ل آ نے کے لئے سا ئیکل تک نہیں ہے۔ جو پرانا یو نیفارم پہن کر اور بو سیدہ سا بستہ کندھوں پر لٹکاکرسکول آتا ہے۔ پرویزنے صابرکی طرف دیکھتے ہوئےکہا جو خاموشی سے پرویزکی باتیں سن رہا تھا۔
صابر اور پرویز ایک دوسرے کے پڑوسی تھے۔پانچویں جماعت تک دونو ں ایک دوسرے کے بہت گہرے دوست تھے۔ دونو ں اکٹھے پیدل سکو ل آیا کرتے تھے۔دونو ں بہت محنتی اور ذہین طالب علم تھے۔ صابر کے ابو ایک سرکاری سکول میں استاد تھے اور پرویز کے ابو کی محلے میں ایک چھو ٹی سی دکا ن تھی۔ صابر کے ابو بہت سیدھے سادھے صبر شکر سے زندگی گزارنے کے قائل تھے، جبکہ پرویز کے والد، اکثربہت سارے پیسے کمانے کے منصوبے بنایاکرتےتھے۔ صابر کے ابو انہیں سمجھایاکرتے تھےکہ اگر انسان حلال طریقے سے اپنی روزی کما کرباعز ت طریقے سے زندگی گزارے تو اس سےبہترکو ئی چیزنہیں ہے۔ جبکہ دولت کی فراوانی انسا ن میں بہت سی خرابیا ں پیدا کر دیتی ہے۔لیکن پرویز کے ابو کے دل میں راتوں رات امیر بننے کے خواب پروان چڑھتے رہے۔
پرویز کے ابو نے دیکھا کہ جولوگ بیرون ملک جا تے ہیں وہ بہت جلد امیرہوکر واپس آتےہیں،کیو ں نہ وہ باہر چلےجائیں؟
اس بارے میں جب انہو ں نےمعلوما ت حا صل کیں تو انہیں پتہ چلا کہ وزارت محنت وافرادی قو ت میں صابر کے ابو کا ایک دوست افسر ہے۔ وہ صابر کے ابو کے پاس آئے اور منت سما جت کرنے لگےکہ وہ اپنے دوست سےکہہ کر اس کوباہربھجوادیں۔ ان کے باربار کہنے پر آخر کا رصابر کے ابو ما ن گئے اور اپنے دوست سے اس کی سفارش کردی۔خوش قسمتی سے ان دنو ں خلیج کے مما لک میں افرادی قوت کی بہت ضرورت تھی۔ صابر کے ابو کے دوست نے پرویز کے ابو کوبا ہر بھجوادیا۔پھر کیا تھا جیسے جیسے پر ویز کے ابو پیسے بھیجتے جا رہے تھے، پر ویز اور اس کے گھر والو ں کے رنگ ،ڈھنگ اور رویے میں تبدیلی آتی جا رہی تھی۔ پر ویز جو پہلے صابر کا گہرا دوست تھا۔ اب اس سے بات بھی نہ کرتا اور جب مو قع ملتا وہ اسے اس کی غربت کا طعنہ دے کر اسے ذلیل کرنے کی ضرورکوشش کرتا۔
صابر کے ابو نے اس کی بہت اچھی تربیت کی تھی۔ وہ خاموشی سے پر ویز کی باتیں سنتارہتا تھا۔ لیکن اس نے کبھی جواب دینےکی کوشش نہیں کی۔آٹھ سال تک خوب کما ئی کرنے کے بعد پرویز کے ابو واپس آگئے۔ جب وہ بیرون ملک گئے تھے ان کا نام شرافت تھا لیکن جب واپس آئے تو آتے ہی سیٹھ شرافت بن گئے۔ وہ باہر سے اپنے ساتھ فریج، ٹی وی، وی سی آر، اور نہ جا نے کیا کیا لا ئے۔
یہا ں آکر سب سے پہلے انہو ں نے جو کا م کیا وہ اپنےغریب رشتہ داروں اور ملنے والو ں سےقطع تعلق تھا۔ صابر کے ابو،جن کی سفارش پر وہ با ہر گئےتھے واپس آکر ان سے ملنے تک نہ گئے۔ واقعی صابر کے ابو نے سچ کہا تھا کہ دو لت اپنے ساتھ بہت سی قبا حتیں لےکر آتی ہے۔
صابر اور پر ویز کے گھر ایک پرانے محلے میں تھے۔ جہا ں گلیا ں کافی تنگ تھیں۔ پر ویز کے ابو سیٹھ شرافت نے آتے ہی ایک لمبی سی کارخریدلی اور اسے جا ن بو جھ کر گلی میں اس طرح کھڑی کر تے تھے کہ ہر آنے جا نے والےکو اس سےچھوکرگزرنا پڑے تاکہ انکی امارت کی دھاک محلے کے سب لوگو ں پربیٹھ جا ئے۔
سیٹھ شرافت اپنے ساتھ جو بہت سی چیزیں لا ئے تھے ان میں ایک بہت بڑا ڈیک بھی شامل تھا۔ جس پر پرویز اور اس کے گھر والے جب چاہتے تیز آواز میں گانے سناکرتےتھے۔صابراب کالج میں پہنچ گیا تھا۔ آج کل اس کے امتحا ن قریب تھے۔ اس لئے وہ رات کو دیر تک پڑھا کر تا تھا لیکن پرویز کے ڈیک نے اسے بہت تنگ کر رکھا تھا۔ وہ جب پڑھ رہا ہو تا تو اچانک پر ویزتیز آواز میں ڈیک پر گا نے لگا دیتا تھا۔ ایک رات بارہ بجے صابر پڑھا ئی میں مصروف تھا کہ ایک گھٹیا سے بھا رتی گانے کی آواز صابر کے کا نو ں میں پڑی۔ اسے غصہ تو بہت آیا مگر وہ بر داشت کر گیا، کچھ دیر تو و ہ اس گا نے کے بندہونےکا انتظارکرتا رہا مگر جب گانا بندنہ ہوا تووہ گھرسے با ہرنکلا اور پرویز کے گھر کے دروازے کی دستک دی۔ کافی دیربعد پرویز بڑ بڑاتا ہوا گھر سے نکلا۔ صابر کو گھورتے ہو ئے بو لا۔
کیا بات ہے؟ اتنا اچھا گانا سن رہا تھا سارا مزہ ہی خراب کردیا۔
پلیز ذرا آواز آہستہ کر لیں میری پڑھا ئی متا ثرہورہی ہے۔ صابرنےکہا۔
تم کو ن ہو تے ہو مجھے آواز آہستہ کر نے کے لیے کہنے والے؟
یہ میرا گھر ہے میر ی مر ضی ہے جو کچھ میں کرو ں۔اگر تم سے پڑھا نہیں جا تا تو کسی کھلے میدان میں جا کر پڑھ لو اور ہا ں آئند ہ اس طر ح منہ اٹھا کر نہ آنا۔ پرویز نے کہا اور دروازہ بند کر لیا۔
جیسے جیسے وقت گزر رہا تھا سیٹھ شرافت کی دولت میں اضافہ ہو تا جا رہا تھا اور اس کی سو چ آسما نو ں کو چھو نے لگی تھی ۔زمیں پر بسنے والے لو گ اسے کیڑے مکو ڑو ں سےبھی حقیرنظر آنے لگے تھے۔ ویسے بھی اب وہ شہر کا سب سے بڑا ٹھیکیدار بن گیا تھا۔اس لئے اب اس پرانے محلے میں رہنا اس کی توہین تھی۔ شاید یہی سو چ کر سیٹھ شرافت نے اپنے پرا نے آبا ئی مکا ن کو تالا لگا دیا اور خود شہر کے جدید ترین رہا ئشی علا قے میں ایک وسیع وعریض کوٹھی میں منتقل ہو گئے۔
وقت کبھی ایک سا نہیں رہتا۔ عین اس وقت جب سیٹھ شرافت کا غرور اورتکبر اپنی انتہا کو پہنچا ہوا تھا۔ وقت نے اسےعرش سے اٹھا کر فرش پر دے مارا۔ ہو ا یہ کہ سیٹھ شرافت نے ایک بڑا پل بنانے کا ٹھیکہ لیا۔ اکثر ٹھیکیدارو ں کی طرح اس میں بھی بد دیا نتی کوٹ کوٹ کربھری ہو ئی تھی۔ اس نے پل کی تعمیر میں انتہا ئی نا قص مال کا استعمال کیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کی ابھی پل کا افتتا ح ہو ئے ایک مہینہ بھی نہیں گزرا تھا کہ پو را پل عین اس وقت دریا میں جاگرا جس وقت اس پر سے بہت سی بسیں اور کا ریں وغیرہ گزر رہی تھیں۔ اس المنا ک حا دثے سے بے انتہا مالی اور جا نی نقصان ہو ا۔ حکو مت نے اس پل کی تعمیر میں مجرما نہ غفلت اور بد دیا نتی پر نہ صرف سیٹھ شرافت کو گرفتار کرلیا بلکہ اس کی تمام جا ئیداد ضبط کرلی اور اس کو بیچ کر پل کے اس سنگین حا دثے میں مرنے والوں کے ورثا کی مالی مدد کی۔
سیٹھ شرافت ایک پھر شرافت بن گیا اور جیل میں سڑ رہا تھا۔جبکہ پرویز اس کے گھر والے دردر کی ٹھو کریں کھانے پرمجبو رتھے۔ انہیں ان کےغرور اورتکبر کی سزا دنیا میں ہی مل گئی تھی۔ مغرور اور ذاتی نمو د و نما ئش کے دلدادہ افراد کو قرآ ن پا ک کا یہ ارشادنہیں بھولنا چا ہیے۔
ان اللہ لا یحب من کان مختالا فخورا۔
ترجمہ:بے شک اللہ اترانے اور بڑائی کرنے والو ں کو نا پسندکرتا۔