چین آبادی کے بحران کا شکار کیسے ہورہا ہے؟

مغربی تمدن و تہذیب کے فسادات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ انسان محض اپنے لیے جینا چاہتا ہے، اسے نہ اپنے آس پاس کے لوگوں کی فکر ہے اور نہ ہی اپنے سے بعد آنے والی نسلوں کی۔ انسان بس اپنی زندگی سے لطف اندوز ہونا چاہتا ہے  لیکن اس لطف اندوزی کے فطری اور قدرتی اثرات تک سے نبٹنے کو تیار نہیں ۔ یہ لطف اندوزی تعیشات کی صورت میں بھی  موجود ہے اور جسمانی لذات کی صورت میں بھی۔

ابتدائے آفرینش سے مرد و عورت کا باہمی تعلق انسانیت کی بقا اور افزائش کے لیے قیمتی سمجھا جاتا ہے اور دنیا کے ہربڑے  مذہب اور ہر تمدن نے  اسے اسی مقصد کے حصول کا ذریعہ قرار دیا ہے۔ لیکن آج کے دور کے مادہ پرستانہ نظریات کی زد سے یہ شعبہ بھی محفوظ نہیں رہا۔ مغرب کے بہت سے ممالک میں شادیاں اگرچہ ہوتی ہیں لیکن اس تعلق میں جڑنے والے مرد و عورت اب افزائش نسل کرنے کو تیار نہیں ہیں۔نتیجہ نکل رہا ہے تیزی سے کم ہوتی ہوئی آبادی اور بوڑھوں کی اکثریت کی صورت میں۔

مغرب کی دیکھا دیکھی یہ بحران اب ایشیائی ممالک کو بھی تیزی سے اپنی گرفت میں لے رہا ہے۔ اس کی ایک بڑی مثال ہمسایہ ملک چین کی صورت میں سامنے آرہی ہے جہاں اس بحران کو روکنے کے لیے بڑی  حکومتی کوششوں کے باوجود شرح پیدائش چھ دہائیوں میں اپنی کم ترین سطح پر آ گئی ہے، جو کہ 2021 میں بمشکل اموات سے زیادہ ہے۔چین کے قومی ادارہ شماریات  اسی ہفتے رپورٹ جاری کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ  چین بھر میں، 2021 میں 10.62 ملین بچے پیدا ہوئے، جو کہ فی ہزار افراد میں 7.52 کی شرح ہے۔جبکہ  اسی عرصے یعنی 2021 میں 10.14 ملین اموات ریکارڈ کی گئیں، اموات کی شرح 7.18 فی ہزار ہے۔ نتیجتاً آبادی میں اضافے کی شرح صرف 0.34 فی ہزار آبادی ہے۔

ترقی کی یہ شرح 1960 کے بعد سب سے کم ہے، اور ماہرین کا کہنا ہے کہ اس دہائی یا عشرے کے ابتدائی سال کی یہ شرح اگلے سالوں میں آنےوالے خطرناک بحران کی پیش گوئی ثابت ہوسکتی ہے۔ یاد رہے کہ چین میں گزشتہ دہائی میں  آبادی میں اضافے کی اوسط شرح0.53٪ تھی،  جو کہ 2000 سے 2010 کے درمیان 0.57٪ سے کم ہوئی تھی۔

دوسری طرف اسی رپورٹ کے مزید  اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ چین میں 60 سال سے زائد عمر کے افراد کا تناسب 2020 میں 18.7 فیصد سے بڑھ کر 18.9 فیصد ہو گیا ہے۔ بوڑھے افراد کے اس بڑھتے تناسب کو بھی آبادی کے ماہرین خطرناک رجحان قرار دے رہے ہیں۔

چین نے گزشتہ کچھ سالوں میں آبادی کے اس بحران کو روکنے کے لیے کئی پالیسیاں بھی بنائی ہیں اور کئی اعلانات بھی کیے ہیں۔مثال کے طور پر حکومت  نے ریٹائرمنٹ کی عمر میں اضافے اعلان کیا ، 2016 سے پہلے ایک خاندان کو دو بچے پیدا کرنے کی اجازت تھی لیکن اس سال سے  تین بچوں والی پالیسی نے دو بچوں والی پالیسی کی جگہ لے لی ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ بلند معیار زندگی  کی ایک نہ رکنے والی ایک دوڑ ہے جس نے چینی نوجوانوں کو شادی نہ کرنے یا بہت  تاخیر  سے کرنے اور پھر بچے پیدا نہ کرنے کے خبط میں مبتلا کردیا ہے۔  

معاشی ماہرین کا یہ کہنا ہے کہ تیزی سے کم ہوتی ہوئی آبادی یا آبادی کا بحران چین کی معاشی ترقی کو بھی بری طرح متاثر کرسکتا ہے۔ مثال کے طور پر چین، جو دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت ہے، نے گزشتہ کئی سالوں سے  جی ڈی پی میں 8 فیصد  کی رفتار سے ترقی کی ہے لیکن رواں سال کی پہلی ششماہی میں 5 فیصد اضافہ ہوا ہے جو کہ اچھے رجحان کی علامت نہیں سمجھا جارہا۔

چین میں آبادی کے بحران کے حوالے سے آپ مندرجہ ذیل ڈاکومنٹری بھی دیکھ سکتے ہیں:

 

متعلقہ عنوانات