الان مسک نے ٹوئٹر ڈیل کیوں منسوخ کی؟چہ میگوئیاں اور حقیقت جانیے
آج کل میڈیا میں ایک مہنگے ترین سودے کا غلغلہ ہے۔ ویسے تو پچھلے تین چار ماہ سے یہ خبروں کی زینت بنا ہوا ہے لیکن اب باسی کڑی میں پھر ابال آیا ہے۔ ٹیسلا، سپیس ایکس اور نیورولنک جیسی نامور کمپنیوں کے مالک اور دنیا کے امیر ترین آدمی الان مسک نے ٹوئیٹر خریدنے سے انکار کر دیا ہے۔ حالانکہ انہوں نے خود ہی خاصی تگ و دو کرنے کے بعد اس ڈیل کو چوالیس ارب ڈالر میں حاصل کیا تھا۔
یہ ٹھیک ہے کہ پچیس اپریل 2022 کو ڈیل منطقی انجام کو پہنچتے ہی یہ تنازعات کے زد میں آنا شروع ہوگئی تھی، تاہم اب بالآخر الان مسک نے معاہدے کو ختم کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ لیکن پارٹی اب بھی ختم نہیں ہوئی۔ ٹوئیٹر کے چئیرمین برٹ ٹیلر نے جمعے کو کہا کہ وہ مسک کے خلاف عدالت میں جائیں گے اور اب لڑائی عدالت میں ہوگی۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اگر فیصلہ مسک کے خلاف آتا ہے تو انہیں معاہدے کی شق کے مطابق ایک ارب ڈالر کی پینلٹی دینا پڑ سکتی ہے۔
ٹوئیٹر کی ڈیل منسوخ کرتے ہوئے الان مسک نے ٹوئیٹر انتظامیہ پر الزام لگایا ہے کہ انہوں نے ٹوئیٹر پر موجود جعلی اکاؤنٹس اور آٹو باٹس کا مکمل ڈیٹا فراہم نہیں کیا، جس کے باعث وہ ٹوئیٹر پر جعلی اکاؤنٹس ختم نہیں کر پائیں گے۔ تاہم اب الان مسک کو اپنا دعویٰ عدالت میں ثابت کرنا ہے۔ نہیں تو انہیں وہ پینلٹی پڑے گی جس کی باز گشت میڈیا میں سنائی دے رہی ہے۔
ٹوئیٹر ڈیل کیسے ہوئی تھی؟
یہ پچیس مارچ 2022 کا دن تھا۔ دو سو ارب ڈالر سے زائد کے اثاثہ جات رکھنے والے دنیا کے امیر ترین آدمی الان مسک نے سماجی رابطے کی ایپ ٹویٹر پر ایک استصواب رائے کروایا۔ استصواب کے لیے ٹوئیٹ تھا:
"ایک چلتی ہوئی جمہوریت میں آزاد رائے بہت ضروری ہے۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ٹوئیٹر اس اصول کی پاسداری کرتا ہے”
اس استصواب کو جاری کرنے کے بعد مسک نے مزید لکھا کہ دھیان سے رائے دی جیے گا۔ اس استصواب کے نتائج بہت اہم ہوں گے۔ ۔ اس استصواب کا نتیجہ تو جو بھی رہا لیکن ٹویٹر پر چہ میگویاں شروع ہو گئیں۔ کوئی بولا مسک ٹوئیٹر کے مدمقابل سماجی رابطے کا پلیٹ فارم کھڑا کرنے جا رہے ہیں۔ کوئی بولا نہیں ڈونلڈ ٹرمپ، جنہیں ٹویٹر سے بین کر دیا گیا تھا کی سماجی رابطے کی ایپ ٹرتھ سوشل سے جڑنے جا رہے ہیں۔ اسی طرح کچھ لوگوں نے کہا کی کہ مسک ٹوئیٹر ہی خریدنے جا رہے ہیں۔
چار اپریل 2022 کو اس استصواب کا مقصد سامنے آیا جب مسک نے ٹوئیٹر کے نو فیصد شئیرز خریدنے کا اعلان کیا۔ ان نو فیصد شئیرز کی مالیت 2.9 ارب ڈالر تھی۔ ساتھ ہی ٹوئیٹر کے بورڈ نے مسک کو بورڈ کا رکن بننے کی آفر کر ڈالی۔ یہ آفر اس لیے تھی کہ مسک پندرہ فیصد سے زائد ٹوئیٹر میں سٹیک حاصل نہ کر پائیں۔ یہ بہت ضروری تھا تاکہ مسک ٹوئیٹر کی پالیسیوں پر زیادہ اثر انداز نہ ہو پائیں۔ نو اپریل کو مسک نے اس پیش کش سے انکار کر دیا۔
چودہ اپریل کو مسک کی ٹوئیٹر خریدنے کی پیش کش سامنے آئی۔ اس کی قیمت مسک نے تنتالیس ارب ڈالر لگائی تھی۔ مسک کی پیش کش سے بورڈ نے انکار کر دیا۔ ساتھ ہی مسک کے ارادے بھانپتے ہوئے ٹوئیٹر کے معاہدے میں پوائیزن پل نامی شق لاگو کر دی۔ یہ شق کسی کو بھی ٹوئیٹر کے پندرہ فیصد سے زائد شیر خریدنے سے روکنے کے لیے تھی۔ اگلے چند دن بلی چوہے کا کھیل جاری رہا اور پھر چوبیس اپریل کو مسک کی ٹوئیٹڑ بورڈ سے میٹنگ طے پا گئی۔ پچیس اپریل کو بورڈ نے اعلان کر دیا کہ ہم نے الان مسک کو ٹوئیٹر کی فروخت چوالیس ارب ڈالر میں کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ یوں ٹوئیٹر نے اپنے مالکان بدل لیےتھے۔
اب معاہدے میں تو ٹوئیٹر کے مالکان بدل گئے تھے لیکن الان مسک کو ابھی ٹوئیٹر کا چارج سمبھالنا تھا۔ معاہدے کے انجام پانے کے چند دن بعد ہی تنازعات کی خبریں باہر آنے لگیں۔ بظاہر لگتا تھا کہ مسک ٹوئیٹر کی انتظامیہ اور ملازمین کے کام کرنے کے انداز سے خوش نہیں ہیں۔ انہوں نے ملازمین کو سختی سے ٹوئیٹر کے دفاتر میں پہنچ کر کام کرنے کی سختی سے ہدایات بھی دیں، اور کہا کہ چند خاص ملازمین ہی بس گھر سے کام کر سکتے ہیں۔ باقی ٹوئیٹر کے بورڈ سے بھی وہ نالاں ہی نظر آئے۔ ان جعلی اکاؤنٹس والی بات پر انہوں نے جون کے اوائل میں دھمکی بھی دی تھی کہ اگر ان کے کہنے کے مطابق عمل درامد نہ کیا گیا تو وہ ڈیل منسوخ بھی کر سکتے ہیں۔ تاہم ظاہر ہے کہ درپردہ بہت سی بات چیت ہوتی رہی ہوگی لیکن اب بات نہیں بنی۔ اسی لیے مسک نے ڈیل کو ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔
ڈیل کی منسوخی کی ممکنہ وجوہات:
اس وقت سوشل میڈیا اور اخبارات میں بہت سی چہ میگوئیاں جاری ہیں۔ بعض ماہرین کا خیال ہے کہ الان مسک بھاؤ تاؤ کے لیے ایسی حرکات کر رہے ہیں۔ وہ ٹوئیٹر کی قیمت چوالیس ارب ڈالر سے گرا کر کم پر اسے خریدنا چاہتے ہیں۔ اب چونکہ معاہدہ ہو چکا ہے تو وہ جعلی اکاؤنٹس کا بہانہ بنا کر نیا معاہدہ کرنے کے چکر میں ہیں۔ اسی طرح ایک اور چہ میگوئی یہ بھی موجود ہے کہ وہ اپنا فوکس سپیس ایکس اور ٹیسلا جیسی کمپنیوں کے پروجیکٹس پر رکھنا چاہتے ہیں۔ لیکن اس پر سوال ہے کہ دنیا کے امیر ترین آدمی کو ڈیل کے بعد خیال آیا کہ ان کا فوکس ہٹ رہا ہے۔ کیا وہ ایک ٹین ایجر لڑکے ہیں جو فیصلہ لینے کے بعد سوچتا ہے یا کامیاب کاروباری شخصیت جو برسوں کی منصوبہ بندی پہلے سے کر کے رکھتا ہے۔
خیر اسی طرح ایک اور خبر میں یہ بھی موجود ہے کہ وہ اپنے نیورولنک جیسے پروجیکٹس کے لیے ٹوئیٹر سے صارفین کا ڈیٹا لینا چاہتے تھے جو کہ اب وہ بہانے سے لے چکے ہیں۔ اب انہیں ٹوئیٹر میں کوئی خاص دلچسپی نہیں۔
اب اصل بات کیا ہے اور پس پردہ کیا چل رہا ہے وہ تو خدا ہی بہتر جانے۔ ہم تو بہت دور بیٹھے ہیں۔ بس تھیلے سے جتنی بلی باہر آئی تھی یا ہمیں دکھائی دی تھی ہم نے آپ کو بھی دکھا دی۔