آخر یہ لبرل اپنی دُم کو سنبھالتے کیوں نہیں کہ ہر جگہ یہ پاؤں کے نیچے آنے کو مچلتی رہتی ہے؟
ویسے لبرل سوچ تو آزادی اظہار رائے، وسیع نظری، رواداری کی دعویدار ہوتی ہے مگر پاکستان میں خود کو لبرل کہنے والے بھی عجب دو رنگی کا شکار ہیں۔ اپنی رائے اوروں پر مسلط کرنا، طعن و تشنع، تنگ نظری و انتہا پسند رویے میں ہمارے لبرل سب سے آگے ہیں۔
پاکستان کا لبرل بھی اسلام سے عناد رکھنے والے جتھے کا نام ہے، جو برساتی مینڈکوں کی طرف بس اسی موقع پر نکل آتے ہیں جب معلوم ہوتا ہے کہ کہیں اسلام مخالف جذبات کی تسکین کا انتظام ہے۔
حالیہ دنوں میں عالمی شہرت یافتہ ڈاکٹر ذاکر نائک نے جب پاکستان کے دورے کا اعلان کیا تو کالے انگریزایسے متحرک ہوگئے گویا ان کو گرم توے پر چڑھانے کا انتظام ہو رہا ہو۔
تعجب کی بات یہ ہے کہ روایتی دینی طبقے کی بجائے مسئلہ اُن لوگوں کوزیادہ ہےجن کے نزدیک اظہار رائے کا ہر کسی کو پورا حق ہے کہ جو چاہیں۔۔۔جہاں چاہیں۔۔ جیسا چاہیں کہیں۔لیکن ذاکر صاحب کے لیے پیمانے آخر بدل کیوں جاتے ہیں ؟
ذاکر نائک کے سویٹ ہوم کے تقریب میں بچیوں کو شیلڈ نہ دینا تھا کہ اُن کے تیروں کو نشانہ مل گیا اور یوں شروع ہوگئے جیسے بچیوں کو شیلڈ نہ دینے سے مسئلہ کشمیر حل ہونے سے رہ گیا یا آئی ایم ایف نے پاکستان کو اگلی قسط دینے سے انکار کردیا ہو۔
پلوشہ نامی لڑکی کے سوال اور ڈاکٹر ذاکر نائک کے جواب پر سارے ایسے سیخ پا ہوگئے کہ جیسے وہ ذاکر نائک سے علمی سطح پر بہت بلندہیں۔۔۔
سارے ایسے مشورے دے رہے ہیں کہ اُن کو کس سے کس طرح اور کیا کہنا چاہیے ؟
آخر یہ لبرل اپنی دُم کو سنبھالتے کیوں نہیں کہ ہر جگہ یہ پاؤں کے نیچے آنے کو مچلتی رہتی ہے؟