امریکہ میں ابارشن پر پابندی: کیا، کیوں اور کیسے؟
امریکی سپریم کورٹ نے گزشتہ جمعے کو ایک تاریخی فیصلہ سنایا ہے جس پر پورے امریکہ بالخصوص لبرل اور فیمینزم طبقے میں کہرام مچا ہوا ہے۔ یہ مسئلہ کیا ہے، اس کے امریکی معاشرے پر کیا اثرات مرتب ہوں گے اور آنے والے دنوں میں کون سے ایشوزمزید دیکھنے میں آئیں گے۔۔۔آئیے اس کی کھوج لگاتے ہیں۔
مسئلے کا پس منظر
امریکہ میں 1973ء سے خواتین کو ابارشن یعنی اسقاط حمل کا حق حاصل ہے۔ 1973ء میں امریکی سپریم کورٹ نے ایک فیصلہ سنایا تھا کہ ابارشن کسی بھی خاتون کا نجی معاملہ ہے اور اسے حق حاصل ہے کہ اگر وہ اپنے پیٹ میں پلتے بچے کو ضائع کروانا چاہے تو اسے آزادی ہے۔ اور کوئی بھی امریکی ریاست چاہتے ہوئے بھی اس پر پابندی یا قدغن نہیں لگاسکتی تھی۔
اب سپریم کورٹ نے کیا فیصلہ سنایا ہے؟
امریکی سپریم کورٹ نے جمعہ کو اسقاط حمل کے اس حق کو ختم کردیا ہے۔ جو 1973ء سے امریکی خواتین کو حاصل تھا۔ ایسا نہیں ہے کہ سپریم کورٹ نے اسقاط حمل پر مکمل طور پابندی کا حکم صادر کیا ہے۔ بلکہ سپریم کورٹ نے یہ حق ریاستوں کو دے دیا ہے کہ وہ اس بارے میں فیصلہ کرنے میں آزاد ہیں کہ آیا اسقاط حمل پر پابندی لگائیں یا نہیں۔
کیا پورے امریکہ میں اسقاط حمل پر پابندی ہوگی؟
یاد رہے کہ امریکی سپریم کورٹ نے کُلی طور اسقاط حمل پر پابندی کا فیصلہ نہیں سنایا بلکہ یہ حق یا صوابدید ریاستی سطح پر منتقل کردی ہے کہ کوئی بھی ریاست ابارشن پر پابندی لگانے میں آزاد ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق اس فیصلے کے نتیجے میں پورے امریکہ میں ابارشن پر پابندی نہیں لگے گی۔ بلکہ آدھی ریاستیں جو تقریباً 26 کے قریب ہیں، وہ ابارشن پر پابندی لگانے کے تیار بیٹھی ہیں۔ جبکہ باقی ریاستوں میں اس پر پابندی نہیں لگائی جائے گی اور وہاں پر یہ حق برقرار رہے گا۔
کون سی ریاستیں اسقاط حمل پر پابندی لگانے کے لیے تیار بیٹھی ہیں؟
وہ کون سی امریکی ریاستیں ہیں جو ابارشن پر پابندی لگانے جارہی ہیں۔ جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا ہے کہ امریکی کی تقریباً نصف ریاستیں (26 کے قریب) ایسی ہیں جو ان قوانین کو لاگو کرنے کے لیے تیار بیٹھی ہیں۔ یہ تمام ریاستیں وہ ہیں جن میں مذہبی یا کنزرویٹو پارٹی کے حامی زیادہ ہیں یا ان کی حکومت ہے۔
ان میں ٹیکساس، اوٹاہ،فلوریڈا، اَنڈیانا، مغربی ورجینیا، الباما، ایری زونا، جارجیا، اوہاوو،لویزیانا،مشی گن، شمالی ڈاکوٹا، اوکلاہوما،جنوبی کیرولینا، تینیسی، وِس کوسِن، مونٹانا،نبراسکا،ارکان ساس وغیرہ نمایاں ہیں۔
یعنی اگر کوئی خاتون ابارشن کروانا چاہتی ہے اور اس کا تعلق ان ریاستوں میں سے کسی ایک سے ہے تو اس کو اجازت نہیں ہوگی۔ البتہ وہ اس ریاست میں جاکر ابارشن کرواسکے گی جہاں پر یہ پابندی نافذ نہیں کی جارہی ہے۔ ان 26 ریاستوں میں سے اکثر میں مکمل پابندی جبکہ چند ایک میں چھے سے آٹھ ہفتوں کے حمل کے اسقاط پر پابندی لاگو ہوگی۔
کن ریاستوں میں اسقاط حمل پر پابندی نہیں ہوگی؟
امریکہ کی جن ریاستوں میں اسقاط حمل قانونی ہے یعنی وہاں ابارشن پر پابندی عائد نہیں ہوگی ان میں امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی بھی شامل ہے۔ واشنگٹن کے علاوہ نیویارک، الاسکا،کیلی فورنیا،کولوراڈو، ہوائی،الی نوئے، میری لینڈ،مینی سوٹا،نیواڈا، نیو ہیمپشائر، نیوجرسی، نیو میکسیکو نمایاں ہیں۔ یہ وہ ریاستیں ہیں جن میں لبرل یا ڈیموکریٹک پارٹی کی حکومت ہے۔
اسقاط حمل پر پابندی کے حامی کون ہیں؟
امریکہ میں اسقاط حمل ، زنا اور ہم جنسی پرستی کے خلاف کئی تحریکیں سرگرم عمل ہیں۔ یہ تحریکیں 'پرو-لائف' یا 'رائٹ ٹو لائف تحریک' کے نام سے معروف ہیں۔ جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا کہ اسقاط حمل پر پابندی زیادہ تر ان امریکی ریاستوں میں عائد کی گئی ہے جہاں مذہبی رجحان زیادہ ہے یا کنزرویٹو پارٹی کی حکومت ہے۔ ان میں 'پرو-لائف تحریکوں' کے حامی بھی شامل ہیں۔ یقیناً ان افراد کے لیے یہ ایک بڑی کامیابی ہے۔ یاد رکھیے کہ ہم جنسی پرستی اور اسقاط حمل کے تصورات کسی فطرت شناس اور مذہب پرست شخص کو قائل نہیں کرتے۔ یہ غیر فطری اعمال ہمیشہ معتوب اور قابل نفرت ہی رہے ہیں۔
امریکی سپریم کورٹ میں کُل نو (9) ججز ہوتے ہیں۔ اس وقت ان میں سے اکثریت (چھے ججز) نسبتاً مذہبی رجحان(کنززویٹو) کے حامل ہیں۔ اس فیصلے کے محرکات میں ان مذہب پرست ججز کا بھی کلیدی کردار ہے۔ اس لیے ہنگاموں کے پیش نظر ورجینیا میں رہائش پذیر ججز کی سیکورٹی بڑھانے کا اعلان کیا گیا ہے۔
کون سی کمپنیاں اس فیصلے خلاف ہیں؟
سی این این کی ایک رپورٹ کے مطابق لبرل یا ڈیموکریٹک کے علاوہ چند امریکی کمپنیاں بھی اس فیصلے کے خلاف کھڑی ہیں۔ ان میں ٹیسلا، ایمازون، ایپل، مائیکروسوفٹ،ڈزنی، میٹا اور وارنر بروس ڈسکوری جیسے ادارے قابل ذکر ہیں۔ یہ ادارے اپنی خواتین ملازمین کو ہیلتھ کیئر کے نام پر اسقاط حمل کے لیے مالی معاونت اور سفری اخراجات کا اعلان کرچکی ہیں۔ ان کمپنیوں کا کہنا کہ اگر ان کی کوئی ملازمہ ان ریاستوں میں رہائش پذیر ہے جہاں ابارشن پر پابندی ہے تو اسے دوسری ریاست تک ابارشن کروانے کے لیے سفر کرنے پر اخراجات دیے جائیں گے۔
اس فیصلے سے امریکی معاشرے پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟
جمعے کو جب امریکی سپریم کورٹ نے اسقاط حمل پر پابندی کا فیصلہ سنایا اس وقت سے امریکہ میں لبرل اور فمینزم کے حامیوں کے ہاں کہرام مچا ہوا ہے۔ اس فیصلے کے خلاف ملک بھر میں احتجاج اور مظاہرے شروع ہوچکے ہیں۔ ورجینیا کے گورنر نے نقضِ امن کے پیش نظر ججز کی سکیورٹی بڑھانے کا بھی اعلان کیا ہے۔ ورجینیا میں ججز کی رہائش گاہوں پر سکیورٹی میں اضافہ کردیا گیا ہے۔
امریکہ کے ساتھ ساتھ پوری دنیا میں اس فیصلے کو زیر بحث لایا جارہا ہے۔ بالخصوص پوری دنیا میں مذہب پرست طبقے میں اسے تحسین کی نظر سے دیکھا جارہا ہے۔ نہ صرف مسلمانوں بلکہ دوسرے مذاہب کے لوگ بھی اسے سراہ رہے ہیں اور اسے اپنی جیت سمجھ رہے ہیں۔ اس فیصلے کے بعد امید کی جارہی ہے کہ امریکہ میں اس نوعیت کے مزید ایشوز پر بھی اس طرح کے فیصلے آسکتے ہیں۔
مستقبل میں امریکہ میں مزید کن ایشوز پر پابندیاں لگنے جارہی ہیں؟
اسقاط حمل پر پابندی کے بعد امریکہ میں جس عمل پر پابندی لگنے کی امید کی جارہی ہے وہ ہے ہم جنس پرستی ہا ہم جنس شادیاں۔ یہ بھی ایک غیر فطری اور نفسیاتی حد تک غیر انسانی رویہ ہے۔ امریکہ میں اسقاط حمل کی طرح ہم جنس پرستی کے خلاف بھی 'پرو-لائف تحریکیں' سرگرم ہیں۔ ہم جنس پرستی کے خلاف کئی کیسز عدالتوں میں دائر کیے جاچکے ہیں۔ امکان ہے کہ امریکی سپریم کورٹ جلد ہم جنس پرستی کے خلاف مقدمے کی سماعت شروع کرے گی۔