جانداروں کے ارتقا کی کہانی: ڈارون نے نظریہ ارتقاء کا خیال کیسے آیا ؟
ڈارون کا نظریہ ارتقا کیا ہے؟ ڈراون نے نظریہ ارتقا کیسے وضع کیا ؟ کیا یہ نظریہ محض خام خیالی تھا؟ ڈارون نے نظریہ ارتقاء کن شواہد کی بنیاد پر تیار کیا؟ آئیے آپ کو بتاتے ہیں۔ لیکن آگے بڑھنے سے پہلے ایک وضاحت۔۔۔
ایک علمی درخواست
نظریہ ارتقاء (The Theory of Evolution ) اور نظریہ تخلیق (Theory of Special Creation) حیاتیات کے دو بنیادی نظریات ہیں۔ دونوں نظریات کے ماہرین اپنے حق میں خاصے دلائل رکھتے ہیں۔ عام طور پر یہ باور کرایا جاتا ہے نظریہ تخلیق، خدا پرستوں (Devout) کا نظریہ ہے جبکہ نظریہ ارتقاء، ملحدین (Atheist)کا نظریہ ہے۔ حالانکہ یہ بات درست نہیں ہے۔ بہت سے خدا پرست سائنسدان (بشمول مسلمان، عیسائی اور یہودی ) بھی نظریہ ارتقاء کو تسلیم کرتے ہیں۔ بہرحال اس تحریر میں صرف یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ چارلس ڈارون نے اپنا نظریہ ارتقاء کن بنیادوں پر قائم کیا تھا۔ اس کے صحیح اور غلط ہونے کا فیصلہ ہم ماہرین پر چھوڑتے ہیں۔
دوسری بات یہ کہ ڈارون نظریہ ارتقاء کو پیش کرنے والاپہلا شخص نہیں تھا۔ ڈارون سے 800 سال قبل کچھ مسلمان ماہرین حیاتیات مثلاََ ابن مسکویہ اور الجاحظ سمیت کئی دیگر مسلمان ماہرین نے بھی اپنی کتب میں اس سے ملتا جلتا نظریہ پیش کیا تھا۔
نظریہ ارتقاء کیا بتاتا ہے ؟
سادہ ترین الفاظ میں بات کریں تو نظریہ ارتقاء بتاتا ہے کہ تمام انواع اپنے ماحول کی مطابقت سے ارتقاپذیرہوتی ہیں۔ جوانواع اپنے ماحول کے ساتھ بہتر مطابقت پیداکرلیتی ہیں، وہ بہتر طریقے سے بقاپاتی ہیں۔ ڈارون کانظریہ ارتقاء (The Theory of Evolution )اوراس کابقائے اصلح(survival of the fittest)کاتصور، جدیدحیاتیات اورحیاتی ماحولیاتی نظام(ایکوسسٹم)کے لئے سب سے اہم اوربنیادی دریافت سمجھی جاتی ہے۔ ڈارون کی دریافتیں 150سال پرانی ہیں لیکن اس کے باوجودیہ اب بھی جانداروں کی قدیم تاریخ اورپودوں اورجانوروں کی زندگی کے ارتقاءکو سمجھنے کے لئے بنیادفراہم کرتی ہیں۔
ڈارون کی دریافت نے علم بشریات(anthropology)اوررکازیات(paleontology)سے متعلقہ کئی سوالوں کاجواب دیاہے۔ اس کی مددسے زمین کی قدیم انواع اورذیلی انواع کی وسیع تقسیم اورخصوصی ساخت کافہم حاصل ہوا۔ اگرچہ اس نظرئیے کوہمیشہ مخالفت اورتنازعات کاسامنارہا، لیکن ڈارون کے اس نظرئیے کوگزشتہ150سال میں سائنسی طورپر خاصی تقویت ملی ہے۔ اس موضوع پراس کی لکھی گئی کتابیں، اس کے دورمیں بھی بہت زیادہ فروخت ہوئیں اوراب بھی بہت شوق سے پڑھی جاتی ہیں۔
ڈارون کا وہ سفر جو نظریہ ارتقا کی بنیاد بنا
چارلس ڈارون 1827ءمیں کیمبرج یونیورسٹی میں پادری بننے کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے داخل ہوالیکن وہاں اسے مذہبی تعلیم کی بجائے ارضیات(جیولوجی)اورنباتیات(باٹنی)میں دلچسپی پیداہوگئی۔ اس نے1831ءمیں 22سال کی عمرمیں گریجویشن مکمل کی۔
اسی سال بیگل(Beagle) نامی ایک بحری جہاز برطانیہ سے جنوبی امریکہ کی طرف جارہاتھا۔ خوش قسمتی سے ڈارون کواس جہازمیں مطالعہ قدرت کے ماہر(naturalist)کے طورپرسفرکرنے کی اجازت مل گئی۔ اس سفرنے ڈارون کووہ خیالات عطاکئے، جنھوں نے اسے سائنس کی تاریخ میں امرکردیا۔ بیگل کاتین سالہ سفر، پانچ سال تک پھیل گیا۔ ڈارون جہازکے ہرپڑائومیں، ہرجگہ انواع کی لاتعداداقسام دیکھ کرحیران رہ گیا۔ اس جہازنے بحرالکاہل کے جزائر”گالاپاگوس“پراضافی پڑائوکرناتھا۔ اس پڑائونے ڈارون کوایک بالکل نیانظریہ سوچنے پرمجبورکردیا۔
ان جزائرکے اس سلسلے کے پہلے جزیرے (چاتھم آئی لینڈ)پرڈارون نے کچھووں کی دونئی اقسام دیکھیں۔ ایک کی گردن لمبی تھی اوروہ درختوں کے پتے کھاتے تھے جبکہ دوسری نوع کی گردن چھوٹی تھی اوروہ چھوٹے پودے کھاتے تھے۔ اس نے وہاں فنچر(چڑیاکی ایک نسل جس کی چونچ قدرے اندرکومڑی ہوتی ہے۔ یہ چھوٹی سے زردرنگ کی چڑیاپورے یورپ میں عام پائی جاتی تھی)کی بھی چارنئی انواع کامشاہدہ کیا۔ اس چڑیوں کی چونچ، یورپی نسل سے خاصی مختلف تھی۔
بیگل اکتوبر1835ءمیں گالاپاگوس کے تیسرے جزیرے(جیمز آئی لینڈ)پہنچا۔ یہ جزیرہ عین خط استواپرواقع تھااوریہاں ساراسال موسم تقریباََ ایک جیسا ہی رہتاتھا۔ ڈارون ہرروزجزیرے کی سیرکے لئے نکل جاتااورمختلف جانوروں کے زندہ اوررکازی نمونے اکٹھے کرتا۔ ڈارون نے جزیرے پرچہچہاتے پرندوں سے بھرے درختوں کے ایک جھنڈمیں، زردچڑیوں کی مزیددواقسام دیکھیں۔تینوں جزائرپراس نے ان زردچڑیوں کی کل چودہ اقسام دیکھیں تھیں۔
ڈارون نے دیکھاکہ ان کی چونچیں، دیگرجزائرپردیکھی گئی چڑیوں کے مقابلے میں، قدرے بڑی اورمڑی ہوئی تھیں۔ مزیداہم یہ کہ یہ چڑیاں وہاں چھوٹے سرخ، رس دارپھل(barries) کھاتی تھیں۔ وہ یہ دیکھ کرحیران رہ گیاکیونکہ دنیابھرکی تمام زردچڑیاں بیج کھاتی تھیں۔ جبکہ ان جزائرپرموجودکچھ چڑیاں بیج کھاتی تھیں، کچھ چڑیاں حشرات(کیڑے مکوڑے)کھاتی تھیں اورکچھ چڑیاں رس دارپھل کھاتی تھیں۔ مزیدحیرت کی بات یہ تھی کہ چڑیوں کی ہرنوع کی چونچ، اس کی غذاکے ساتھ مطابقت رکھتی تھی۔
ڈارون کوان عیسائی تعلیمات پرشک ہونے لگاجن کے مطابق،انواع کبھی تبدیل نہیں ہوتیں اور خدانے ہرنوع کوعین اسی طرح پیداکیاتھا، جس طرح کہ یہ اب موجودہیں۔ ڈارون نے نتیجہ اخذکیاکہ بہت عرصہ قبل، ان زردچڑیوں کی کوئی قسم جنوبی امریکہ سے گالاپاگوس کے مختلف جزائرپرپہنچی اورپھراپنے مخصوص ماحول کے مطابق اوراپنی مخصوص غذاکے حصول کے لئے(یعنی زندہ رہنے کے لئے) بہترین حالت میں مطابقت اختیارکرگئیں۔(ارتقاءپذیرہوگئیں)
اس نے یہ دریافتیں اپنی ایک کتاب”مطالعہ قدرت کے ایک ماہرکابیگل پربحری سفر“میں بیان کیں۔ برطانیہ واپس آنے کے بعد، ڈارون نے ممتازماہرمعاشیات تھامس مالتھس کے مضامین کامطالعہ کیاجن میں دعویٰ کیاگیاتھاکہ جب انسانی آبادی مطلوبہ غذا پیداکرنے کے قابل نہیں رہتی توکمزورترین لوگ بیماریوں یالڑائیوں میں ہلاک ہوجاتے ہیں اورصرف طاقتور لوگ ہی بچ پاتے ہیں۔ ڈارون نے محسوس کیاکہ یہی تصور جانوروں کے ماحول پربھی لاگوکیاجاسکتاہے۔
اس نے مالتھس کایہ تصوراپنے ان مشاہدات اورتجربات کے ساتھ جمع کیاجواس نے بیگل پرسفرکے دوران وضع کئے تھے اوریہ نتیجہ نکالاکہ تمام انواع اپنے تحفظ کویقینی بنانے کے لئے ارتقاءپذیرہوتی رہتی ہیں۔ ڈارون نے اس نظرئیے کو”فطری انتخاب“(نیچرل سلیکشن)کانام دیا۔
اسے اپنی یہ دریافتیں لوگوں کے سامنے پیش کرنے میں خاصی دشواری کاسامناکرناپڑا۔ اس لیے کچھ عرصے کے لئے اس نے اس نظرئیے سے کنارہ کشی بھی اختیارکی لیکن پھر ماہرین کے اصرارپراس نے اپنے نظرئیے کو1859ء میں مکمل وضاحت کے ساتھ اپنی کتاب”اصلِ انواع“ (On the Origin of Species)میں بیان کیا۔ اس کتاب کے ذریعے، ڈارون کی دریافتیں اورنظریات، حیاتیاتی سائنس کے لئے ایک مشعل راہ کی حیثیت اختیار کرگئے۔ اگرچہ بعد کے ماہرین نے ڈارون کے نظریہ ارتقاء میں موجود کئی خامیوں کی نشاندہی بھی کی اور اسے مزید بہتر بھی بنایا، تاہم چارلس ڈارون کو بجا طور پر نظریہ ارتقاء کا اولین دریافت کنندہ تسلیم کیا جاتا ہے۔