وادِیِ ایمن کا نور
رنگ ہو یا خشت وسنگ ، چنگ ہو یا حرف وصوت
معجزۂ فن کی ہے خونِ جگر سے نمود۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!
سر زمینِ اندلس پر مسلمانوں کے عہد رفتہ نے کئی حوالوں سے بڑے پائیدار اور درخشاں نقوش چھوڑے ہیں جو سات صدیاں بیت جانے کے باوجود اپنی پوری آب و تاب سے اس بات کا اعلان کر رہے ہیں کہ
ابھی اس راہ سے کوئی گیا ہے
کہے دیتی ہے شوخی نقشِ پا کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!
اُس دورِ تاب ناک میں جہاں علم و فضل کے بے بہا موتی بکھیرے گئے جن سے خوشہ چینانِ مشرق و مغرب نے نہ صرف استفادہ کیا بلکہ آج اُنکے ہاں جو بھی علم و حکمت کی روشنی نظر آتی ہے وہ اسی اندلس کے چراغِ علم و عرفان کی مرہونِ منت ہے۔ ذوقِ تعمیرات میں بھی یکتائے عالم عمارات کی ایک لمبی فہرست اندلس کے مسلمانوں کی صناعی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ لیکن ان تمام عمارتوں میں جو نفاست اور پاکیزگی جامع مسجد قرطبہ کے حصہ میں آئی وہ الفاظ میں ہی بیان کی جا سکتی ہے اور نہ کسی اور ذریعہ اظہار سے اس کے حسن و جمال ، تزئین و آرائش ، نُسخی گل کاریوں اور پچی کاریوں کی تفصیل پیش کی جا سکتی ہے ۔ وہ ایسی چیز تھی جودیکھنے کی چیز تھی اور بار بار دیکھنے کی چیز تھی۔ اگرچہ گردش ایام کے تھپیڑوں نےآج اس کا بہت سا حسن اجاڑ ڈالا ہے، لیکن پھر بھی اس کے جدتِ تعمیر و ندرتِ آرائش کے جو آثار زمانہ کی دستبرد سے بچ سکے ہیں ، اب بھی اس بات کا اعلان کرتے نظر آتے ہیں کہ شور تھا اس مکاں میں کیا کیا کچھ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!
آئیے اس کی تاریخ پر ایک نظر دوڑاتے ہیں۔۔۔۔۔۔!!
جب عبد الرحمٰن الداخل (756-788) نے اندلس کی زمامِ کار اپنے ہاتھ میں لی اور نظم و نسقِ سلطنت کی نوک پلک کو بخوبی سنوار چُکا تو اس نے اموی جامع مسجد دمشق کا ایک پرتوِ جاہ وجلال' اور اس کی ہم پلہ ایک مسجد تعمیر کرنے کا ارادہ کیا جو اہلِ اندلس و مغرب کو ایک نئی شان عطا کرسکے ۔چنانچہ اس نے اپنی وفات سے صرف دو سال پہلے یہ کام شروع کرایا اور اسی بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے مسجد کی تعمیر کی نگرانی اس نے خود کی۔
یہ عظیم مسجد وادی الکبیر میں دریا پر بنائے گئے رومی دور کے قدیم ترین پل کے قریب تعمیر کی گئی۔ روایات میں آتا ہے کہ یہاں پر پہلے سینٹ ونسنٹ کی یادگار' ایک گرجا قائم تھا اور جس کا ایک حصہ پہلے ہی سے بطور مسجد مسلمانوں کے زیر تصرف تھا۔ جب قرطبہ دارالسلطنت بنا تو مسلمانوں نے مسجد کی توسیع کے لئے عیسائیوں سے باقی ماندہ حصہ خریدنے کی کوشش کی مگر وہ اسے فروخت کرنے پر تیار نہ ہوئے ۔ لیکن جب عبدالرحمن الداخل کا زمانہ آیا تو اس نے بھاری قیمت ادا کرکے پورا گرجا خریدلیا۔ قبضہ حاصل کرلینے کے بعد 786ء میں اس نے اسے گرا کر اس کی جگہ ایک دیدہ زیب مسجد کی دیواریں کھڑی کر دیں۔ تعمیر کا کام جس ذوق و شوق سے شروع ہوا اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ الداخل نے دو سال کی قلیل مدت میں اس مسجد کی تعمیر پر 80ہزار دینار خرچ کر دیئے ۔
مسجد کی چھت دیدہ زیب ستونوں پر قائم کی گئی ہے جو تقاطع سے دونوں اطراف کثرت سے متوازی راستے بناتے چلے گئے ہیں ۔ ان ستونوں پر نہایت پر شکوہ محرابیں قائم ہیں۔ یہ محرابیں نہ صرف اس عظیم مسجد کی وجۂ امتیاز ہیں بلکہ ہسپانوی طرز تعمیر کی پہچان بھی قرار پائی ہیں ۔ یہ محرابیں دہری شکل میں بنی ہوئی ہیں ۔ یعنی ایک محراب پر دوسری قائم کر کے انہیں چھت سے ملا دیا گیا ہے ۔ چھت زمین سے تیس فٹ کی بلندی پر ہے ۔ جس کے باعث مسجد میں ہوا اور روشنی کا حصول آسان ہو گیا ہے۔ چھت پر دو سو اسی جگمگاتے ستارے بنائے گئے تھے ۔ جن میں سے اندرونی دالان کے ستارے خالص چاندی کے تھے ۔ اس کے علاوہ چھت مختلف چوبی پٹیوں سے آراستہ تھی۔ ہر پٹی پر نقش ونگار کا انداز محتلف تھا۔ مسجد کے وسط میں تانبے کا ایک بہت بڑا فانوس بھی معلق تھا جس میں بیک وقت ایک ہزار چراغ جلتے تھے۔ خاص دالان کے دروازہ پر سونے کا کام کیا گیا تھا۔ جبکہ محراب اور اس سے متصل دیوار سونے کی تھی ۔ سنگ مر مر کے ستونوں پر سونے کے کام سے ان کی تزئین و آرائش کا کام نہایت نفاست سے کیا گیا تھا۔
عبد الرحمن الداخل کے بعد ہشام اول (788-796)کا دور آیا تو اس نے اس مسجد کی تعمیر و توسیع کو مذید آگے بڑھایا ۔ یہاں تک کہ اس نے اپنے دور حکومت کے سات سالوں میں تمام مال غنیمت کا خمس مسجد کی تعمیر پر خرچ کیا۔ مسجد کا وہ عظیم الشان مینار جو چہار پہلو تھا اسی کے زمانے میں تعمیر ہوا۔ اس مینار کا شمار عجائبات عالم میں ہوتا تھا۔
حقیقت تو یہ ہے کہ ہر حکمران نے اپنی بساط اور ذوق کے مطابق اس پر بے دریغ خرچ کیا۔ ہزاروں مزدوروں نے سینکڑوں معماروں کی معیت میں اس مسجد کی تعمیر و آرائش پر اپنا خون پسینہ ایک کیا اور اس یکتائے روزگار مسجد کی تکمیل پر ماہ و سال نہیں صدیاں خرچ ہوئیں۔ تب جا کر اسے وہ مقام حاصل ہوا جو تاریخ میں بہت کم عمارتوں کو حاصل ہو سکا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!
نقش ہیں سب ناتمام خونِ جگر کے بغیر
نغمہ ہے سودائے خام خونِ جگر کے بغیر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!
افسوس اس بات کا ہے کہ اسلامیانِ عالم میں ایک عرصہ سے وہ خونِ جگر ناپید یے جو ملتوں کی زندگی اور بقا کا ضامن ہے۔ چنانچہ اسلامی تاریخ کے طالب علم کو اُس درخشندہ ماضی کے مزار سے کھنڈرات اور چند اوراقِ گم گشتہ کے سوا کچھ بھی ہاتھ نہیں آتا اور وہ انہیں ادھوری ، بھولی بسری داستانوں کو سُن اور دیکھ کر لُطف اندوز ہونے کی کوشش میں آبدیدہ ہوجاتا ہے۔
اگر ماضی منور تھا کبھی تو ہم نہ تھے حاضر
جو مستقبل کبھی ہوگا درخشاں ، ہم نہیں ہوں گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!