سفرِ زیست
وقت کٹتا ہے ، گزرتا ہی چلا جاتا ہے ۔ بارہا ایسا ہوا کہ ہم سفر پر نکلے ، بے سمت و راہ ، یعنی یہ نہیں سوچا کہ کہیں پہنچنا ہے ، ہاں شاید نہاں خانۂ دِل میں موہوم سا یہ خیال ضرور رہا ہو گا کہ بس چلتے جانا ، چلتے ہی چلے جانا ہے۔
یوں بھی نہیں کہ دور کہیں کوئی منتظر ہے ، یا یہاں اپنے گھر، اِس مرکزِ حیات، ڈور کے اِس سِرے پر ہمیں کچھ چُبھن ہے ، کوئی درد ہے ، کچھ تشنگی در پیش ہے۔
اس میں ایک عنصر ساتھ چلنے والوں کا بھی ہے ۔ اب یہ لازم نہیں کہ ہمراہی صنفِ مخالف سے ہی ہو ، بس کوئی ایسا جس کے ساتھ کچھ لمحے دھنَک پر قدم معلوم ہوں ۔ ایسا کوئی ہو تو سمجھیے سفَر ہی منزِل ہے ، یہ ساتھ ہی کُل کائنات ہے۔
پہلے ایسا کب ہوتا تھا؟؟؟ وقت کی دھارے نے بہتے بہتے یہ روپ دکھایا ہے۔ یعنی کیا کہِیں پہنچنا ہے ؟؟؟ کیا کہیں سے تاخیر نہیں ہو رہی؟؟؟ کیا سُبُک گام ہونا مقصود نہیں؟؟
ہم نے تو یہی جانا کہ چلتے چلیے ، کیا خبَر کِس راہ پر کون کِس لمحے کِسے مقبول ہو جائے ، کہاں مقصود ہو جائے۔
۔۔۔۔
حماد یونس