لاہور سائنس میلہ: سرن لیب کیا ہے؟ ا س کا انسانیت کو کیا فائدہ ہے؟
آج لاہور سائنس میلہ 2022 کا دوسرا دن ہے۔ اس میلے کے پہلے دن تقریباً ساٹھ ہزار افراد نے وزٹ کیا جس میں ہر عمر، طبقے، رنگ اور نسل کے لوگ شامل تھے۔ میلے کا دوسرا دن بھی حیرت اور تجسس کا سامان لیے ہوئے ہے۔ لیکن ان سرگرمیوں میں سب سے اہم سرن لیب کا تعارف ہے۔کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ سرن لیب کیا ہے؟ اس کی اہمیت کیا ہے؟ اس کا انسانیت کو کیا فائدہ ہوگا؟ سرن میڈیا لیب کے صدر تشریف لارہے ہیں
سرن میڈیا لیب کے صدر آج ڈویژنل پبلک سکول اینڈ انٹرمیڈیٹ کالج ماڈل ٹاؤن لاہور میں لیکچر دیں گے۔ اس لیکچر کو سمجھنے سے قبل اگر یہ تحریر پڑھ لی جائے تو لیکچر زیادہ مفید رہے گا۔
سرن لیب کیا ہے؟
سرن (CERN) پارٹیکل فزکس کی یورپی لیبارٹری ہے جو سوئٹزرلینڈ میں جنیوا کے قریب واقع ہے۔ اس میں مادے کے بنیادی ترین ذرات (Sub-Atomic Particles) کو انتہائی بلند توانائی پر باہم ٹکرا کر، ان سے پیدا ہونے والے نئے ذرات اور ان کی خصوصیات کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ اس تجربہ گاہ کا اصل مقصد یہ معلوم کرنا ہے کہ کائنات بنیادی طور پر کس چیز سے بنی ہے اور یہ کہ طبیعیات کے قوانین کس طرح اس کے طرز عمل کا تعین کرتے ہیں۔
یورپی آرگنائزیشن فار نیوکلیئر ریسرچ ، جسے اس کے فرانسیسی مخفف CERN (Conseil Européen pour la Recherche Nucléaire )سے جانا جاتا ہے ، دنیا کی سب سے بڑی پارٹیکل فزکس لیبارٹری ہے۔ اسے 1954 میں ، یورپ کے پہلے مشترکہ منصوبوں میں سے ایک کے طور پر قائم کیا گیا تھا۔اس کا واضح مقصد یورپ چھوڑ کر امریکہ جانے والے باصلاحیت سائنسدانوں کے انخلاء (برین ڈرین ) کو روکنا تھا۔
اس وقت 100 سے زائد ممالک سے تعلق رکھنے والے 10,000 سے زیادہ سائنس دان ہر سال CERN میں اس کی سہولیات کو استعمال کرنے کے لیے آتے ہیں، جن میں اب تک کے بنائے گئے سب سے بڑے اور پیچیدہ ترین سائنسی آلات شامل ہیں۔ اس کی ایک حالیہ دریافت جنوری 2022 میں سامنے ، جب CERN کے سائنسدانوں نے "لارج ہیڈرون کولائیڈر" (LHC) میں پیدا ہونے والے کوارک گلوآن پلازما میں X ذرات کی موجودگی کا اعلان کیا۔
لارج ہیڈرون کولائیڈر (LHC) کیا ہے؟
لارج ہیڈرون کولائیڈر (The Large Hadron Collider) سرن کے ماہرین کا تیار کردہ ایک پارٹیکل ایکسلیریٹر ہے ۔ ایک ایسا آلہ جس میں ذیلی ایٹمی ذرات (Sub-Atomic Particles) کو کنٹرول شدہ طریقے سے بہت زیادہ توانائی (تقریباََ 14 ٹیرا الیکٹرون واٹ)کے ساتھ باہم ٹکرایا جاتا ہے تاکہ ان کے باہمی تعاملات کا مشاہدہ کیا جا سکے۔ LHC اب تک دنیا کا سب سے بڑا ایکسلیریٹر ہے، جو تقریباً 27 کلومیٹر کی ایک دائروی سرنگ پر مشتمل ہے۔ ایل ایچ سی میں جن اہم سائنسی موضوعات پر تحقیق کی جا رہی ہے، ان میں سے چند کی تفصیل درج ذیل ہے:
1۔ مادے کے بنیادی ترین ذرات کی دریافت
میٹرک کی سطح پر ہمیں بتایا گیا تھا کہ مادہ تین بنیادی ذرات یعنی الیکٹرون، پروٹون اور نیوٹرون پر مشتمل ہوتا ہے۔ پھر گریجویشن سطح پر بتایا گیا کہ پروٹون اور نیوٹرون بھی دراصل بنیادی ذرات نہیں ہیں بلکہ یہ کوارک (Quarks) نامی ذرات سے مل کر بنتے ہیں۔ پھر ان کوارکس کی بھی کئی اقسام سامنے آ تی گئیں۔ ماہرین دراصل ان بنیادی ترین ذرات تک پہنچنا چاہتے ہیں جو بگ بینگ کے بعد سب سے پہلے وجود میں آئے تھے۔ یہ ساری کوششیں انھی بنیادی ذرات کی دریافت کے لئے کی جا رہی ہیں۔
2- مادہ اور ضد مادہ
آج ہم اپنی کائنات میں جو مادہ دیکھتے ہیں، یہ مادے کا صرف ایک پہلو ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بگ بینگ کے وقت، ہماری کائنات دو طرح کے مادے پر مشتمل تھی: مادہ اور ضد مادہ ( matter and anti-matter)۔ بگ بینگ تھیوری کے مطابق کائنات کا آغاز دونوں کی یکساں مقدار سے ہوا ہوگا۔اس کے باوجود بہت جلد، غالباً کائنات کے وجود کے پہلے سیکنڈ کے اندر، تقریباً تمام اینٹی میٹر غائب ہو چکا تھا اور صرف وہ عام مادہ باقی رہ گیا جسے ہم آج دیکھتے ہیں۔ سائنسدانوں کے مطابق ضد مادہ بھی کائنات میں موجود ہے لیکن ہم اس کا سراغ نہیں لگا سکے۔ اس ضد مادے کی خصوصیات کو معلوم کرنا بھی LHC کے بنیادی مقاصد میں سے ایک ہے۔سائنسدان جانتے ہیں کہ تمام بنیادی ذرات کوارک سے مل کر بنے ہیں، لیکن LHCb کو ایسے ذرات کا پتہ لگانے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے جن میں خاص طور پر نایاب قسم کے کوارک شامل ہیں جنہیں "بیوٹی کوارک " کہا جاتا ہے۔ انھیں ضد مادے کے نمائندے ذرات سمجھا جاتا ہے۔
3- بگ بینگ جیسے حالات کی تیاری
لارج ہیڈرون کولائیڈر میں ذیل ایٹمی ذرات (مثلاََ پروٹون) کو انتہائی بلند توانائی پر باہم ٹکرا کر تقریباََ ویسے ہی حالات پیدا کئے جاتے ہیں جیسے حالات بگ بینگ کے کچھ لمحوں بعد موجود تھےکہ جب کائنات کی پیدائش ہوئی تھی۔ ان ذرات کے باہمی تصادم کے ملبے کا مطالعہ کرکے، طبیعیات دان اس راز کو حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ مادہ کس چیز سے بنتا ہے اور ذرات اپنی کمیت کیسے حاصل کرتے ہیں۔
4- اسٹینڈرڈ ماڈل کی جانچ کرنا
لارج ہیڈرون کولائیڈر کا سب سے اہم کام پارٹیکل فزکس کے "معیاری ماڈل" (Standard Model) کو جانچنا ہے۔ ۔ 1970 کی دہائی میں تیار کیا گیا یہ کامیاب نظریہ 17 ابتدائی ذرات اور کائنات کی چار بنیادی قوتوں میں سے تین (یعنی برقی مقناطیسیت، مضبوط ایٹمی قوت اور کمزور ایٹمی قوت )کے درمیان تعامل کو بیان کرتا ہے۔ چوتھی قوت کشش ثقل جسے ابھی تک اسٹینڈرڈ ماڈل میں ایڈجسٹ نہیں کیا جا سکا ۔
"سرن" کی اہم دریافتیں
سرن کے ماہرین نے 1983 میں ڈبلیو اور زیڈ بوسون نامی ابتدائی ذرات کے جوڑے کی دریافت کی تھی ، جسے بعد میں طبیعیات کا نوبل انعام دیا گیا۔ برطانوی کمپیوٹر سائنس دان ٹم برنرز لی نے 1989 میں CERN میں کمپیوٹرز کے ایک دوسرے سے بات کرنے کا طریقہ تیار کرکے ورلڈ وائڈ ویب ایجاد کرنے میں مدد کی جسے "ہائپر ٹیکسٹ ٹرانسفر پروٹوکول" (HTTP) کہا جاتا ہے۔
1995 میں، CERN کے سائنسدانوں نے ہائیڈروجن کے اینٹی میٹر کے ہم منصب یعنی اینٹی ہائیڈروجن کے ایٹم بنائے۔ 2000 میں، انہوں نے مادے کی ایک نئی حالت دریافت کی جسے" کوارک گلوآن پلازما" کہتے ہیں۔
سرن کی سب سے اہم دریافت ، اسٹینڈرڈ ماڈل میں بیان کردہ "ہگز بوسون" کی دریافت تھی۔ اسٹینڈرڈ ماڈل نے طویل عرصہ پہلے ایک ایسے ابتدائی ذرے کے وجود کی پیشین گوئی کی تھی جسے ہگز بوسون کہتے ہیں۔ اس ذرے کا 2012 میں پہلی بار CERN کےلارج ہیڈرون کولائیڈر میں مشاہدہ کیا گیا۔ اس دریافت کو بھی نوبل انعام سے نوازا گیا۔
سرن کا مستقبل کیا ہے؟
اگرچہ سائنسدان مادے کے بارے میں بہت کچھ جان چکے ہیں، لیکن ابھی بہت کچھ جاننا باقی ہےجیسا کہ تاریک مادہ کیا ہے؟ کائنات اینٹی میٹر (ضد مادے) سے زیادہ عام مادے پر مشتمل کیوں ہے؟
یہ جاننے کے لئے لارج ہیڈرون کولائیڈر کو 2026 سے 2028 تک بند کردیا جائے گا تاکہ اسے اپ گریڈ کیا جا سکے۔ تب اسے ایک نیا نام HL-LHC یعنی (High-Luminosity LHC )کا نام دیا جائے گا ۔ تب یہ مشین گزشتہ بیس سال کی نسبت 30 گنا زیادہ توانائی کے ساتھ کام کرنے کے قابل ہو گی، جس سے طبیعیات دان معیاری ماڈل کو اپنی مقررہ حدود تک لے جائیں گے۔
مستقبل کا "پارٹیکل کولائیڈر
سرن کے ماہرین کا جذبہ یہیں پر ختم نہیں ہو رہا۔ وہ ایک نئے کولائیڈر کی منصوبہ بندی بھی کر رہے ہیں جسے فی الحال "فیوچر سرکلر کولائیڈر" (FCC)کا نام دیا گیا ہے۔ یہ مجوزہ کولائیڈر 100 کلومیٹر کی دائروی سرنگ کا حامل ہو گا۔