بچوں کی تربیت: کیا ، کیوں اور کیسے کی جائے؟

آج کل والدین اپنے بچوں کی تربیت سے متعلق بہت پریشان نظر آتے ہیں۔ بچوں کی بری عادات اور بدتمیزی سے نالاں ہیں۔۔۔والدین اپنے بچوں کی تربیت کیسے کریں؟ اچھی عادات کیسے سکھائیں ؟ یہ سب اس تحریر میں ملاحظہ کیجیے۔

کوئی شک نہیں کہ بچے ہمارا مستقبل ہیں، یہ صرف ہمارا نہیں بل کہ ملک و قوم کا بھی مستقبل ہیں۔ ہمیں اپنے آپ اور اپنے ملک کے مستقبل کے لیے ہمیشہ تیار رہنا ہو گا۔ اور کوشش کرنا ہو گی کہ درخشاں مستقبل، ہمارا مقدر ہو۔

اگر ہم چاہتے ہیں کہ آپ کے بچوں کا مستقبل سنور جائے، 

ہمارے بچوں کی تربیت اچھی ہو

ہمارے بچے معاشرے میں کامیاب ہوں

تو ہمیں چاہیے کہ:

*1: ہم اپنے لیے گھر وہاں خریدیں/بنائیں جہاں ہمارے بچوں کر پڑھے لکھے دوست ملیں۔*

*2: اپنے بچوں کو گھر میں الگ سے پڑھائی کے لیے کمرا دیجیے انھیں کھیل کود کا بھی وقت دیجیے مگر نگرانی میں جس میں ان کی جسمانی و ذہنی نشوونما ہو۔ اور وہ غلط دوستوں سے بچے رہیں۔*

 

*3: ایسے اساتذہ سے ان کی تربیت کروائیے کہ جن سے آپ خود متاثر ہوں۔ فسادی، فرقہ پرست، شخصیت پرست اور برادری پرست لوگوں کی محفل سے بچا کر اخلاقی اور فلاحی امور کو ترجیح دینے والوں کی مجلس میں بیٹھنے کی تربیت دیجیے۔*

*4: اپنے بچوں کو بزرگوں (بوڑھے لوگوں) کی محفل میں بیٹھنے کا عادی بنائیں تاکہ وہ کم عمری میں بزرگوں کی باتیں سن کر ان سے متاثر ہوں اور ان کے تجربات سے مستفید و مستفیض ہوں۔*

 

*5: بچوں کے سامنے کبھی جھوٹ نہ بولیے۔ انھیں حکم دینے کی بجائے ان کے سامنے اچھے کام خود کیجیے، وہ خود ہی آپ کو کاپی کریں گے، وہ آپ کو دیکھ آپ جیسا ہی بنیں گے۔*

*6: بچوں کو سوالات کرنے سے کبھی نہ روکیے ورنہ ان کے سیکھنے کے عمل کو متاثر اور slow کر بیٹھیں گے۔ انھیں ہر وقت ٹوکتے نہ رہیں، یوں بچے کی فیصلہ کرنے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے۔*

*7: اپنے بچوں سے اک حد تک دوستی رکھیں، مگر دوستی لازمی رکھیں تاکہ وہ دوستانہ ماحول میں آپ کو ہر مسئلہ آسانی سے بتا سکیں۔ دوستی میں اتنا خیال رکھیں کہ والد/والدہ اور بیٹے/بیٹی کے فرق کو ختم نہ کر دیا جائے۔*

 

*8: اپنے بچوں سے ان کے دوستوں اور اساتذہ کے بارے لازمی سوالات کرتے رہا کریں۔ جوانی کے دور میں قدم رکھتے بچوں سے ان میں پیدا ہونے والی جسمانی تبدیلیوں اور پیچیدگیوں کا ان سے خود ذکر کریں اور حل بتائیں، ورنہ وہ غلط لوگوں کی صحبت میں جا کر سوالات کرنے سے غلط گائیڈنس لے کر مشکلات کا شکار ہو سکتے ہیں۔*

 

*9: اگر آپ کے بچے جوان ہو چکے ہیں اور مخالف جنس کے استاد سے متاثر ہوں، یعنی بیٹی ہے اور وہ ہر وقت سر کے بارے باتیں کرتی ہو، یا بیٹا ہو اور وہ ہر وقت مس کے بارے باتیں کرتا ہو، گھر میں یا دوستوں میں آپ یا کسی سے بھی ہر وقت اپنے استاد کو ڈسکس کرے تو بچے کو محسوس کروائے بغیر ان پر نظر رکھیں، مشکوک بن کر نہیں، بل کہ مثبت سوچ رکھ کر، بچے کی بھلائی کی خاطر، جان لیں کہ آپ کو اب اس کی نگرانی کی زیادہ ضرورت ہے۔ اور یہ صرف استاد کے لیے نہیں، بل کہ بچے کے دوست احباب اور رشتہ داروں میں سے بھی ہر اس شخص کے لیے ہے، کہ جس کے بارے وہ زیادہا باتیں کرنا پسند کرتا/کرتی ہو۔*

 

*10: ہمیں چاہیے کہ ہم وقتاً فوقتاً اپنے بچے کے دوستوں سے لازمی ملتے رہیں، ہمارے بچے کا کوئی دوست ایسا نہ ہو جسے ہم نہ جانتے ہوں یا جو ہمیں نہ جانتا ہو۔ کوئی بھی ایسا طریقہ لازمی اپنائیں کہ آپ اپنے بچے کے تمام دوستوں سے سال میں کم و بیش دو چار بار لازمی ملیں۔*

 

*11: جو احباب حاکمانہ انداز اپناتے ہیں ان کے بچے جوان ہو کر ان سے دوری اختیار کرنے میں ہی بھلائی سمجھتے ہیں۔ اپنے رویہ کو ہمیشہ مثبت رکھیے۔ بچوں سے دوستانہ ماحول بنائیے اور کوشش کیجیے کہ آپ کے بچے آپ کے قریب رہیں، دور نہ ہوں۔*

 

مندرجہ بالا باتوں میں سے ہر پوائنٹ پر اور پر پوائنٹ میں بیان کردہ نکتہ سے ہر کسی کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

نہ ان سب کو فرض واجب سمجھ لیا جائے۔

بس چند تجاویز ہیں۔ مثبت انداز میں ان پر عمل کیا جائے تو امید واثق ہے کہ ہم اپنی نسلوں کو سنوار سکتے ہیں۔

بری صحبت سے بچا سکتے ہیں اور انھیں اپنا دشمن بنانے کی بجائے دوست بنا سکتے ہیں۔

متعلقہ عنوانات